عمران خان پاکستان میں آف شور کمپنیوںکے باوا آدم ہیں۔سینیٹرپرویزرشید
عمران خان نے کل آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف جرم کرلیا ہے،عمران خان کو پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے جواب دینا ہوگا،جن کی آف شور کمپنی نہیں ان کا نام سینکڑوں بار عمران خان کی زبان پر آیا،وائٹ کالر کرائم کرنے والے عمران خان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں،وزیراعظم پیر کو اسمبلی میں پالیسی بیان دینگے۔وفاقی وزیراطلاعات کی پریس کانفرنس
ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 14 مئی 2016 15:57
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔14مئی۔2016ء) :وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ عمران خان نے کل آف شور کمپنی بنانے کا اعتراف جرم کرلیا ہے،عمران خان کو پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے جواب دینا ہوگا،جن کی آف شور کمپنی نہیں ان کا نام سینکڑوں بار عمران خان کی زبان پر آیا،وائٹ کالر کرائم کرنے والے عمران خان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں،وزیراعظم پیر کو اسمبلی میں پالیسی بیان دینگے،پی ٹی آئی کے سب سے زیادہ رہنماؤں کی آف شور کمپنیاں ہیں،جن میں عمران خان،جہانگیرترین،علیم خان،خیبرپختونخواہ کے سینئر وزیر،ایک سینیٹر اور عمران خان کی بہن کی آف شور کمپنی ہے۔
انہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تین ہفتوں سے پاکستان کے سیاسی افق پر پانامہ پیپرز موضوع بحث بنے ہوئے ہیں جن صاحب نے سب سے زیادہ اس بحث میں حصہ لیا اور اخلاقی معیار مقرر کئے وہ سب کے علم میں ہے۔(جاری ہے)
عمران خان نے کہا تھا کہ آف شور کمپنیاں ٹیکس بچانے، لوٹی ہوئی دولت کو بچانے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے حاصل ہونیوالی رقوم کو ٹھکانے لگانے کیلئے بنائی جاتی ہیں یہ تمام معیار عمران خان نے اپنے ٹویئٹ ، بیانات اور پریس کانفرنس کے ذریعے بیان کئے جب عمران خان لوگوں پر انگلیاں اٹھا رہے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ عمران خان آف شور کمپنیوں کا نام پہلی مرتبہ سنا ہے نہ وہ کسی آف شور کمپنی کے مالک ہیں اور نہ ہی انکا کوئی تعلق ہے اور پہلی مرتبہ آف شور کمپنی کی برائیاں انکے سامنے آئی ہیں اور وہ لوگوں کو بتا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ریکارڈ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں میں سے عمران خان کی پارٹی کے اراکین سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں جن میں عمران خان ، جہانگیر ترین ، علیم خان ، کے پی کے سینئر وزیر ترکئی ، سینیٹر ترکئی اور عمران خان کی محترمہ بہن بھی شامل ہیں ۔
ان تمام لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ انکی آف شور کمپنیاں ہیں اور کسی نے تردید نہیں کی ۔ لہذا عمران خان کے فتوے کے مطابق یہ چھ کے چھ لوگ ٹیکس بچانے ، لوٹی ہوئی دولت ٹھکانے لگانے اور منی لانڈرنگ کی رقم بچانے کیلئے آف شور کمپنیاں بنانے میں ملوث ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی صرف ایک کمپنی نکلی ہے انکے بارے میں کہتے ہیں کہ بد سے بدنام ہوا انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے کسی رکن پارلیمنٹ ، وزیراعظم یا کسی وزیر کا نام کسی آف شور کمپنی ہے صرف تحریک انصاف ہی سب سے بڑی ملزم پارٹی ہے عمران خان کی کمپنی 1983 ء میں قائم کی گئی جبکہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے صاحب کی کمپنی اس سے10 سال بعد قائم کی گئی ۔ مسلم لیگ ن اس دوڑ سے باہر ہے لہذا سب سے سینئر ملزم اور تعداد کے لحاظ سے بھی تحریک انصاف ہی ہے اور یادداشت سب سے زیادہ کس کی کمزور ہے وہ بھی تحریک انصاف ہی ہے گزشتہ تین ہفتے سے عمران خان آف شور کا کوڑا ہاتھ میں لے کر مخالفین کی پٹائی کر رہے ہیں اور دوسری جانب ان کی اپنی کمپنی ان کی جیب میں پڑی تھی وزیراعظم نواز شریف کی کوئی آف شور کمپنی نہیں لیکن ان کا نام سینکڑوں مرتبہ عمران خان کی زبان پر آیا اور استعفیٰ بھی مانگ لیا اور انہیں اخلاقی مجرم بھی قرار دیدیا۔ پرویز رشید نے کہا کہ عمران خان کو 1980 ء میں رنز بنانے اور وکٹیں گرانے کا یاد ہے لیکن آف شور کمپنی کا یاد نہیں ۔ پاکستان میںآ ف شور کمپنی کا ”باوا آدم“ کا تاج عمران خان کے سر پر سجے گا ۔ عمران خان سچ کو چھپاتے ہیں اور جھوٹ کو اچھالتے ہیں عمران خان کیری پیکر اور دیگر جگہ جا کر کھیلتے رہے لیکن انہوں نے کبھی اپنے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور نہ ہی اثاثے ظاہر کئے جب انہوں نے انتخاب میں حصہ لیا تو اپنے اثاثے ظاہر کئے عمران خان کی محترمہ بہن نے بھی باہر جائیدادیں خریدیں لیکن انہوں نے بھی چھپایا کیا عمران خان نے اپنی بہن کو یہ ترکیب بتائی تھی کہ ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنی بنائی جائے ؟۔ وزیر اطلاعات نے کہاکہ عمران خان کو بتانا ہو گا کہ اس آف شور کے ذریعے کیا کیا کیا ؟ کتنی جائیدادیں خریدی گئیں؟ پاکستان میں رہتے ہوئے اس آف شور کمپنی کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟ عمران خان پاکستان میں رہتے تھے اس کے باوجود ٹیکس کیوں جمع نہیں کرایا اور اثاثے کیوں ظاہر نہیں کئے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب عمران خان نے آف شور کمپنیوں کے حوالے سے مہم شروع کی تو عوام کو کیوں نہیں بتایا کہ وہ خود بھی آف شور کمپنی کے مالک ہیں جب اخبار میں خبر چھپ گئی تو عمران خان نے آف شور کمپنی کا مالک ہونے کا اعتراف کر لیا ۔ عمران خان کو اس کا جواب پارلیمنٹ اور اپنے ووٹروں کو بھی دینا ہو گا چیف جسٹس نے بھی اپنے خط میں کہا ہے کہ نام بتائے جائیں ۔ عمران خان کے چھ لوگ شامل ہیں اب عمران خان یہ نہیں کہہ سکتے کہ دوسروں کا حساب لو اور میرا رہنے دو ۔ عمران خان کو کمیشن ، پارلیمنٹ اور پریس کانفرنسوں میں ان سوالوں کا جواب دینا ہو گا ۔ عمران خان نے اپنی پریس کانفرنس میں اعتراف جرم کیا ہے اس بار ے میں عوام کو بتانا ہو گا کہ ٹیکس کیوں نہیں دیا اور آف شور کمپنی کیوں چھپائی عمران خان ملزم نمبر ایک بن گئے ہیں کیونکہ جرائم پیشہ گروہ بھی عمران خان کے دائیں بائیں ہیں۔ قرضے معاف کرانے کا ذکر آئے تو بھی تحریک انصاف ہی کا نام آتا ہے عمران خان کی ایک اے ٹی ایم کو ای او بی آئی کیس میں بھی اعتراف کرنا پڑا اور چیک دینے پڑے ۔ وائٹ کالر کرائم کی کوئی بھی قسم ہو سب سے زیادہ لوگ عمران خان کے دائیں بائیں نظر آتے ہیں اس لئے عمران خان کے پاس سیاست کرنے کا اخلاقی جواز کیا ہے ؟ قرضہ معاف کراتے وقت غریب ترین اور بعد ازاں امیر ترین کہلانے والے عمران خان کی پارٹی میں ہیں ۔ عمران خان دوسروں پر الزام بھی لگائیں اور سیاست بھی کریں سول نافرمانی کی باتیں بھی کریں پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ بھی کریں اور وزیراعظم ہاؤس پر بزور قبضہ کرنے کی بات کریں اس کا اخلاقی جواز کیا ہے؟ ایک سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف کے کاغذات کوئی خفیہ دستاویزات نہیں ہیں وہ 1985 ء سے الیکشن لڑ رہے ہیں اور اپنے کاغذات نامزدگی بھی جمع کروا رہے ہیں وزیراعظم نواز شریف نے اپنے کاغذات نامزدگی میں جو بھی ظاہر کیا ہے کہ ان میں کوئی غلطی نکالی جائے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پیر کو قومی اسمبلی میں خطاب کرنا ہے جس میں وہ پالیسی بیان دینگے اس میں تمام امور شامل ہونگے وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی ملاقات کے حوالے سے میڈیا کے بعض حصوں میں چلنے والی خبروں سے متعلق سوال کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس حوالے سے وزیراعظم ہاؤس سے جو پریس ریلز جاری ہوئی ہے وہ بہت جامع ہے اس کے آخری جملے میں واضح طور پر تمام باتیں بتا دی گئی ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ میرا تعلق تحریک انصاف سے نہیں لیکن انصاف سے تعلق ضرور ہے جو کسی کیلئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں ضرور گرتاہے اللہ تعالی صرف تحریک انصاف کا نہیں تمام کائنات کا رب ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہد ری کی طرف سے وزیراعظم نوازشریف کے استعفے دینے سے متعلق مطالبے کے جواب میں وزیر اطلاعات نے کہا کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے کتنے اراکین اسمبلی میں ہیں وہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں ابھی تک وہ کسی طبقے کی نمائندگی نہیں کرتے قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلیوں یا بلدیاتی اداروں میں ان کی پارٹی کا کوئی وجود نہیں جب کبھی عوام نے انہیں نمائندگی کا حق دیا تو ان کے منہ سے باتیں اچھی لگیں گی مسلم لیگ ن سینیٹ، قومی اسمبلی، چاروں صوبائی اسمبلیوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اپنا وجود رکھتی ہے بلدیاتی اداروں میں بھی اس کی سب سے زیادہ نمائندگی ہے پیر کو وزیراعظم کے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ میں جانے سے متعلق سوال کے جواب میں سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پاکستان کے دونوں ایوانوں میں وزیراعظم نواز شریف پہلے بھی جاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی جاتے رہیں گے۔مزید اہم خبریں
-
مارکیٹ میں گندم کے نرخ 3 ہزار سے نیچے گر گئے
-
6 ججز کے خط پر اب تک اٹھائے جانیوالے اقدامات ناکافی، غیرمؤثر اور عدلیہ کے مستقبل کیلئے نہایت خطرناک ہیں
-
عام تعطیل کا اعلان
-
آسمانی بجلی اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی، متعدد افراد جاں بحق
-
وزیر اعظم نے کابینہ ڈویژن کے سرکاری کاغذات لیک ہونے کا نوٹس لے لیا
-
علی امین گنڈاپور کو چاہیے مستقل اڈیالہ جیل میں ہی شفٹ ہو جائیں
-
اسٹیٹ بینک کی جانب سے مقامی مارکیٹ سے 4 ارب ڈالرز سے زائد خریدے جانے کا انکشاف
-
پاکستان کو غزہ کی بڑھتی ہوئی صورتحال پر گہری تشویش ہے،وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف
-
طالب علموں کو پتا ہونا چاہیے کہ کونسی حکومت ہائرایجوکیشن کے لئے مخلص ہے، گورنرپنجاب
-
قومی اسمبلی اجلاس، وزراء کی عدم شرکت پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق برہم
-
ایران کی صدر کے دورہ سے متعلق اپوزیشن کو اعتماد میں لیں گے،اسحاق ڈار
-
آزاد ویزہ پالیسی کا حامی ہوں ،چاہتا ہوں سکھوں کے لئے پاکستان کے ویزے آسان کردیئے جائیں ، محسن نقوی
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.