بنگلہ دیش میں مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دیکر 45 سال پرانے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ‘ مطیع الرحمن جیسے عالم دین کی پھانسی سے اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں ہیجان پیدا ہوگیا ،

مشیر خارجہ سرتاج عزیز کاسینیٹ میں تحریک التوا پر بحث کے دوران اظہار خیال

جمعہ 13 مئی 2016 16:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔13 مئی۔2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں مطیع الرحمن نظامی کو پھانسی دیکر 45 سال پرانے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے‘ مطیع الرحمن جیسے عالم دین کی پھانسی سے اسلامی دنیا سمیت پوری دنیا میں ہیجان پیدا ہوگیا ہے اور اقوام متحدہ‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور ترکی نے بھرپور مذمت کی‘ پھانسی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس سے بنگلہ دیش کے جمہوری اور عدالتی نظام میں خامیاں سامنے آئی ہیں ‘ بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ 1974 میں کئے گئے وعدے کی خلاف ورزی کی معاملہ ہیومن رائٹس کونسل اور عالمی برادری کے ساتھ اٹھائیں گے‘ پھانسیاں بنگلہ دیش کے سیاسی اور عوامی مفادات کے خلاف ہیں‘ بنگلہ دیش کو نظر ثانی کرنی چاہئے‘ عالمی برادری کو معاملے کا نوٹس لینا چاہئے‘ اراکین سینٹ نے مطیع الرحمن کی پھانسی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش نے بھارت کو خوش کرنے کے لئے پھانسیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے‘ ان کو پاکستان کے ساتھ محبت کی سزا دی گئی ہے‘ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والوں کی اکثریت کو ختم کیا جارہا ہے ‘ پھانسی عدالتی قتل ہے پاکستان عالمی سطح پر کردار ادا کرتے ہوئے ظلم اور بربریت کو ختم کرائے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار جمعہ کو ایوان بالا میں سینیٹر راجہ ظفر الحق‘ نہال ہاشمی‘ جنرل عبدالقیوم‘ مشاہد الله خان‘ ایم حمزہ نے پھانسی دینے کے حوالے سے نہال ہاشمی کی جانب سے پیش کی گئی تحریک التواء پر بحث کرتے ہوئے کیا۔ جمعہ کو ایوان بالا کا اجلاس چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں ہوا۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ مطیع الرحمن سقوط ڈھاکہ سے قبل پاکستان کے بھی شہری تھے اور پاکستان کی بقاء اور دو قومی نظریے کی جنگ لڑتے رہے پاکستان سے مخاصمت اور بھارت کو خوش کرنے کیلئے ٹریبونل قائم کیا گیا جس کو بنیاد بنا کر پے درپے پھانسیوں کا سلسلہ جاریر کھا ہوا ہے۔

سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ ترکی نے جس طرح اپنا سفیر واپس بلایا ہے ہمیں بھی اپنا سفیر واپس بلانا ہوگا ۔سقوط ڈھاکہ میں ہماری بھی کچھ غلطیاں تھیں ۔حسینہ واجد اور ان کا ٹولہ وہ سانپ ہیں جنہوں نے پاکستان کو ڈسا ہے۔ سینیٹر ایم حمزہ نے کہا کہ مطیع الرحمان کا پاکستان کے ساتھ ذہنی اور نظریاتی تعلق تھا۔ مجھے پھانسی چڑھنے والوں پر رشک آتا ہے۔

اگر میں بھی وہاں ہوتا تو پھانسی چڑھنے کو ترجیح دیتا ۔غلطیاں بعض افراد نے کیں اور خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا ۔سینیٹر مشاہد خان نے کہا کہ قوم کو پتہ لگنا چاہئے کہ 1971 میں کیا ہوا تھا۔ ہم نے بنگلہ دیش کو مجبور کیا کہ وہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کریں وہاں پر بسنے والے مسلمان آج بھی پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ شیخ حسینہ واجد کے علاوہ باقی وہاں کے مسلمانوں کے دل ہمارے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہمارے حکمران نے انہیں سور کے بچے کہا جس کا ریکارڈ تاریخ پر موجود ہے۔

اس وقت پیپلز پارٹی پانچ میں چار صوبوں میں ہار چکی تھی مگر اس وقت ادھر تم ادھر ہم کی پالیسی پر عمل پیرا تھا۔ بعض تاریخی وجوہات میں بنگالیوں کو کرکٹ ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا تھا ۔فوج میں انہیں اس لئے شامل نہیں کیا جاتا تھا کہ ان کے سینے چوڑے نہیں تھے۔ 2002 کے الیکشن میں ایک کرنل اور میجر بلا کر انٹرویو کرتے تھے کیا یہ الیکشن تھے ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک معاہدہ ہوا تھا کہ کسی کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اس معاہدے کو سامنے لانا چاہئے۔

بنگلہ دیش میں جج سیاسی بنیادوں پر تعینات کئے گئے ہیں جو پاکستان کے وفاداروں کو پھانسی دے رہے ہیں ۔کیا ایک صاحب بہت زیادہ ٹویٹ کرتے تھے اور ان پھانسیوں پر کوئی ٹویٹ نہیں۔ اس پر مذمت سے بڑا لفظ کہنا چاہئے۔ حسینہ واجد کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے اور بھارت اس میں ملوث ہے ہمیں تمام سوسائٹی کے طبقات کو اس کی مذمت کرنی ہوگی۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ دکھ کی بات ہے پاکستان کی حمایت کرنے والے ایک گروپ جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے جدوجہدک ی تھی اور محفوظ بنانے کے لئے کردار ادا کیا تھا عدالتی قتل کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جو رکنے میں نہیں آرہا مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا منصوبہ مکمل کیا گیا۔

ہندوستان اور بنگلہ دیش میں پاکستان مخالف گروپ نے مل کر اس منصوبہ کو مکمل کیا۔ اس کے بدلے پاکستان کے خلاف منظم پروپیگنڈا کیا گیا۔ بنگلہ دیش میں مجھے بتایا گیا کہ وہ سارے عناصر جو پاکستان کے حق میں تھے۔ ان کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں ایک بڑی اکثریت تھی جو پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتی تھی۔ پاکستان کو تحمل کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے کہ بنگلہ دیش کے لوگوں کی حمایت حاصل کرنی چاہئے۔

بنگلہ دیش میں جو نفرت کی دیواریں کھڑی کی جارہی ہیں پاکستان کو اس کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کرنے والے لوگوں کو تسلسل سے ختم کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو عالمی سطح پر کردار ادا کرتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے ترکی نے اس سلسلے میں بڑا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس ظلم بربریت اور قتل ناحق کی مذمت کرتے ہیں اور اس کو مستقل طور پر ختم کرے۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ فاضل ممبران نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ پوری قوم کے جذبات کا عکاس ہے پنتالیس سال پرانے زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے اس کا افسوس ہے مطیع الرحمن جیسے عالم دین کے ساتھ یہ سلوک قابل افسوس ہے 72 لوگوں کے خلاف کیسز چل رہے ہیں پانچ کو پھانسی دی جاچکی ہے اسلامی دنیا میں ہیجان پیدا ہوگیا ہے اور ہر طرف سے اس کی مذمت آرہی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل‘ یورپی یونین‘ ہیومن رائٹس اور ترکی کے صدر نے ان کو مجاہد کہا ہے اور بھرپور مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی بہت بہت اہم ہے۔ جمہوری نظام اور عدالتی عمل میں بھی خامیاں بھی ظاہر ہوئی ہیں ہیومن رائٹس کونسل میں اجاگر کریں گے اور باقی ممالک کے ساتھ معاملے کو اٹھائیں گے۔ 1974 میں ایک معاہدہ کیا تھا اور وعدہ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل 15 کے تحت کیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج کیا گیا اور اسمبلیوں کی قراردادوں کی کاپیاں ان کو پیش کیں ۔مجموعی طور پر چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں ان حالات میں عوامی رابطوں اور آمدورفت میں بڑی رکاوٹیں پیدا ہوگئی ہیں۔ ارکان سینٹ کی تجاویز کے تحت لائحہ عمل بنائیں گے یہ عمل بنگلہ دیش کے سیاسی اور عوامی مفاد میں کیا ہے۔ اس کارروائی پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ اسلامی دنیا میں غیر مقبول ہے اور عالمی دنیا میں آواز اٹھ رہی ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ بنگلہ دیش کے قیام کی ابتداء اس وقت ہوئی جب پاکستان کی اشرافیہ نے جمہوری اقدار کو چھوڑ کر زبان اور قومیت کو اہمیت دی۔