امریکہ سے ایف 16 کی خریداری کے حوالے سے معاملہ کے حل کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ کانگریس نے ایف 16 کے مالی معاملات کے حوالے سے قدغن لگائی ہے، امریکی انتظامیہ معاملے پر ہمارے موقف کی حمایت کر رہی ہے، پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا ، 3 ماہ سے امریکہ سے تعلقات میں تعطل سامنے آیا ،اس کی جھلک امریکی کانگریس کے فیصلہ میں سامنے آئی ہے، مطالبات نہ مانناامریکی ناراضگی کی وجہ ہے ‘ جوہری معاملات پر امریکی مطالبہ کو مسترد کردیا ، اب شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ‘ حقانی نیٹ ورک کی حمایت کا بھی الزام لگایا جا رہا ہے، قومی سلامتی اور ملکی مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے ‘ طالبان کی جانب سے موسم سرما کے بعد کے حملوں کے آغاز کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے ، اختلافی نقطہ نظر سامنے آیا ‘ چار ملکی را بطہ گروپ کا اجلاس 18،19 مئی کو اسلام آباد میں ہو گا

مشیر خارجہ سرتاج عزیزکاسینیٹر محسن لغاری کی ایف 16 طیارو ں کی خریداری بارے قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال مسئلے پر دفاع اور خارجہ کی مشترکہ کمیٹی قائم ،معاملہ سپرد کردیاگیا

جمعرات 12 مئی 2016 22:50

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔12 مئی۔2016ء) مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ سے ایف 16 کی خریداری کے حوالے سے معاملہ کے حل کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں‘ کانگریس نے ایف 16 کے مالی معاملات کے حوالے سے قدغن لگائی ہے، امریکی انتظامیہ معاملے پر ہمارے موقف کی حمایت کر رہی ہے، پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا ہے، 3 ماہ سے امریکہ سے تعلقات میں تعطل سامنے آیا ہے جس کی جھلک امریکی کانگریس کے فیصلہ میں سامنے آئی ہے،امریکہ کے مطالبات نہ ماننا بھی ناراضگی کی وجہ ہے، جوہری معاملات پر امریکی مطالبہ کو مسترد کردیا ہے ‘ شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے ‘ حقانی نیٹ ورک کی سپورٹ کا بھی الزام لگایا جا رہا ہے ‘ طالبان کی جانب سے سپرنگ حملوں کے آغاز کے بعد مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے اور اختلافی نکتہ نظر سامنے نآیا ‘ چار ملکی را بطہ گروپ کا اجلاس 19،18 مئی کو اسلام آباد میں ہو گا۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی کی صدارت میں سینیٹر محسن لغاری کی امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ایف 16 طیارو ں کی فروخت پر مجوزہ سبسڈی کے حوالے سے قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہار خیال کررہے تھے ۔ سینیٹر محسن لغاری نے کہا کہ دفترخارجہ کی کمزوری ہے کہ ہندوستان کی دھمکیوں کی وجہ سے پاکستان کا وزن کم ہوا۔ پاکستان دنیا میں تنہا ہو رہا ہے ۔

ہندوستان دفتر خارجہ نے نیا کام کیا ایران اور افغانستان سے تعلق بنا کر پاکستان پر دباؤ بڑھا لیا ہے ۔ بھارتی وزیر اعظم کے ایران کے دورہ کے دوران چاہ بہار میں بھاری سرمایہ کاری کے اعلان کی خبریں آرہی ہیں ۔ بھارتی وزیر اعظم واشنگٹن کا جون میں اپنا چوتھا دورہ کریں گے اور دونوں ہاؤسوں سے خطاب کریں گے ۔ امریکہ کو ایف 16 ہمیں بیچنے میں مسئلہ ہے دوسری طرف بھارت میں ایف 16 بنانے کی پیشکش ہو رہی ہے ۔

ہمارا دفتر خارجہ مکمل طورپر فعال نہیں ہے ۔ سینئر لوگوں سرتاج عزیز اور طارق فاطمی کے درمیان اختیارات کے حوالے سے مسائل سے کارکردگی متاثر ہو رہی ہے ۔ دفتر خارجہ ناکام ہو رہا ہے ۔ دنیا آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہمارا ملک رکا ہوا ہے ۔ خارجہ پالیسی کی سمت ٹھیک نہیں ہے فیصلہ کون کر رہا ہے یہ دیکھنا ہے ۔ سرتاج عزیز واضح کریں کہ پاکستان دنیا میں کس کے ساتھ کھڑا ہے ۔

راء کے ایجنٹ کی گرفتاری کے کیس کو دنیا کے سامنے صحیح طرح پیش نہیں کر سکے جب کہ بھارت ممبئی حملوں اور دیگر معاملات کو اچھال رہا ہے ۔ سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان بنیادی مسائل کو حل کرنا چاہیے ۔ ایف 16 پچھلے پانچ دہائیوں سے زیادہ پرانا ہے ۔ ہمارے پاس 70 جہاز ہیں اب اس سے بہتر جہاز آگئے ہیں ۔ بھارت صحیح کہہ رہا ہے کہ یہ ان کے خلاف استعمال ہوں گے ۔

کل بھوشن یادیو اور دیگر بھارت کے لوگ پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ہوں گے تو ان کے خلاف استعمال ہو گی ۔امریکہ کی حکومت دنیاچاہتی ہے ۔ کانگریس میں ہنود اور یہود کی لابیاں کام کر رہیں ہیں اور پاکستان کو ایف 16دینے سے انکار کر رہے ہیں ۔پرسلز ترمیم پاکستان کے خلاف امتیازی ترمیم تھی ۔ 9/11 کے بعد ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا لیکن ڈرون حملے بھی ہمارے اوپر ہوئے ہم فرنٹ لائن اتحادی تھے ۔

پاکستان دہشت گردوں کے خلاف استعمال کرنے تھے اس وجہ سے مانگ رہے ہیں ۔امریکہ نے ہر مشکل وقت میں ہمیں تنہا چھوڑا۔ ہم نے 100 ارب ڈالر کے اخراجات ہوئے اور 60 ہزار لوگ قربان ہوئے لیکن اس کے باوجود امریکہ نے تعاون نہیں کیا ۔ چیلنجز پاکستان کے لئے ہیں لیکن پاکستان چیلنجز کا مقابلہ کرے گا ۔ ایف 16 کے جہازوں کا معاملہ حل ہو جائے گا ۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ امریکہ ایک طرف جمہوریت اور انسانی حقوق کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف آمروں کی حمایت کرتا ہے ۔

امریکہ کہتا ہے کہ ہمارے مفادات دنیا کی تمام چیزوں زیادہ عزیز ہیں ۔ محفوظ سی پیک محفوظ افغانستان کے ساتھ منسلک ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی غیر متوازن پالیسی ہے اس کو متوا زن بنانا ہو گا ۔ ایف 16 چھوٹی بات ہے اس سے بھی بڑے فیصلے پاکستان کے خلاف ہو چکے ہیں ۔ ہماری کمزوریوں کی وجہ سے بھارتی کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے ۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ملک کی خارجہ پالیسی منتخب پارلیمنٹ کے اختیار میں نہیں ہے ۔

حکومت جب تک پارلیمنٹ کی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرے گی ہماری خارجہ پالیسی ٹھیک نہیں ہو سکتی ۔ پاکستان ہمیشہ استعمال ہوتا رہا اور روس کے خلاف مسلسل امریکہ کی جنگ لڑی اور دنیا کا توازن خراب کرایا ۔ فلسطین اسرائیل جنگ میں باتوں میں ہم فلسطین کے ستھ تھے لیکن عملاً امریکہ کے ساتھ تھے جو اسرائیل کو مضبوط کر رہا تھا ۔ دوغلی اور منافقانہ پالیسی ختم کرنی ہو گی ۔

خیرات کے لئے درخواستیں کرر ہے ہیں اور گلے کر رہے ہیں ۔ بھارت نے غیر جانبدارانہ پالیسی اختتیار کی ۔ خارجہ پالیسی پارلیمنٹ کی ماتحت ہو تو خارجہ پا لیسی ٹھیک ہو جائے گی دیگر اسٹیبلشمنٹ خارجہ پالیسی طے کر ے گی تو حالات ٹھیک نہیں ہوں گے ۔ سینیٹر میرحاصل بزنجو نے کہا کہ جس طرح ہم دوسرے ممالک کی عزت کرتے ہیں دنیا کو بھی ہماری عزت کرنی چاہیے ۔

تمام جنگوں میں ہم نے امریکہ کا اسلحہ استعمال کیا امریکہ سے تعلقات کہاں سے خراب ہوئے یہ دیکھنا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں کھچاؤ کیوں ہے ۔ اصل تباہی روس کے خلاف امریکہ کی جنگ میں حصہ بننے سے شروع ہوئی ۔ پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوا ۔ امریکہ کی محبت میں روس کی دشمنی کی ۔ اب سوچنا ہے کہ چین کی محبت میں امریکہ کی دشکمنی میں نہیں جا رہے ۔

پالیسی میں توازن رکھنا ہو گ ا ۔ کسی دشمنی اور دم چھلا بننے کی ضرورت نہیں ہے ۔ امریکہ میں ایک لابی ہے ٹرمپ لابی جو سمجھتا ہے کہ پاکستان کا بڑا جرم ہے کہ وہ مسلمان ہے اور کئی لابیاں پاکستان کے خلاف ہیں ۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے کہا کہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستانی فوج جس طرح پاکستان میں طالبان کے خلاف لڑ رہی ہے ۔ افغانستان میں بھی لڑے ۔

آج تک جب بھی خارجہ پالیسی بنائی ہے پاکستان نے امریکہ کی وفاداری ری ہے جب کہ امریکہ نے پاکستان سے غداری کی ہے ۔ امریکہ کا پاکستان کے ساتھ منافقانہ رویہ ہے اور نفرت کی وجہ بن رہا ہے ۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل امت مسلمہ کے خلاف غاصبوں اور چوروں کی آماج گاہ بن چکا ہے ۔ لامریکہ نیوکلیئر معاہدہ بھارت سے کر رہا ہے ۔ بھارت کو نیوکلیئر سپلائر گروپ تک رسائی دی جا رہی ہے اور بین الاقوامی نیوکلیئر ایجنسی سے استثنیٰ دیا جا رہا ہے ۔

جب ہم چین سے معاہدہ کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ آپ نے نیوکلیئر سپلائر گروپ سے اجازت نہیں لی۔ امریکہ کا رویہ اس وجہ سے معائدانہ اور منافقانہ ہے۔ امریکہ کے حواسے سے خارجہ پارلیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے ۔ کیا ہمارا وزیر خارجہ نواز شریف ہے ۔ جنرل راحیل شریف ہے ، سرتاج عزیز ہے اور طارق فاطمی ہے کون ہے یہ اب تک واضح نہیں ہے ۔ امریکہ ہماری سیاست ، معیشت اور دفاعی صلاحیت پر حملہ آور ہے ۔

پالیسی کا تعین ہونا چاہیے ۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ تمام ممالک اپنے مفادات میں خارجہ پارلیسی بناتے ہیں ۔ ایف 16 کے معاملہ کو لے کر سخت بیانات نہیں دینے چاہیے ۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ایف 16 معاملہ نہیں ہے امریکہ پاکستان تعلقات کے دو حصہ ہیں جن میں ایک سول حکومت اور ملٹری حکومتوں کے درمیان تعلقات ہیں ۔ ملٹری دور حکومت میں اڈے ، راہداریاں دیئے گئے اور سول حکومتوں میں اس طرح نہیں ہوا۔

مشیر خارجہ سرتاچ عزیز نے کہا ہے کہ امریکہ سے ایف 16 کے8 طیاروں کے حصول کے حوالے سے 2 مراحل تھے ۔ پہلا مرحلہ کامیابی سے مکمل ہوا ۔ امریکہ سے ایف 16 طیاروں کے حصول کے حوالے سے گزشتہ سال سے مذاکرات جاری تھے ۔ پہلے مرحلہ پر امریکہ نے پاکستان کو 8 ایف 16 طیاروں کو فروخت کرنے کی منظوری دی ۔ دوسرا مرحلہ فنانسنگ کا تھا سمجھوتے کے تحت پاکستان کو 270 ملین ڈالر ادا کرنا تھے باقی رقم امریکہ نے فارن ملٹری فنانس فنڈز سے ادا کرتی تھی ۔

امریکہ نے طیاروں کی فنانسنگ پر قدغن لگائی کہ ایف ایم ایف فنڈز طیاروں کی فنانسنگ کے لئے نہیں دیئے جائیں گے البتہ پاکستان کو یہ رقم دوسرے منصوبوں کے لئے استعمال کرنا ہو گی رقم روکنے کا فیصلہ نہیں کیا ۔ حکومت پاکستان معاملے کے حل کے لئے کوششیں کر رہی ہے ۔ امریکہ کے ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ پر بات چیت کی جا رہی ہے وہ تسلیم کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے پاکستان کو ایف 16طیاروں کی ضرورت ہے، اس حوالے سے پاکستان نے کئی اقدامات کئے ہیں۔

وزیر دفاع نے 19 اپریل کو امریکی سیکرٹری دفاع کو خط لکھا تھا، رچرڈ اولسن سمیت امریکی انتظامیہ ہمارے موقف کی حمایت کر رہی ہے، بھارتی لابی ہمارے ایف 16 کی فروخت کے حوالے سے مکمل فعال ہے اور امریکی سینیٹر کے ذریعے ڈیل کو منسوخ کرانے کی کوشش کی، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات 70سال پر مشتمل ہیں اور اس میں اتار چڑھاؤ رہا، سویت یونین کے خلاف امریکی کیمپ میں جانا ضروری تھا کیونکہ بھارت روس کے کیمپ میں جا چکا تھا اور ہمارے امریکہ کے ساتھ مفادات وابستہ تھے، امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مثبت انداز میں آگے بڑھایا ہے، وکی لیکس، ریمنڈ ڈیوس، سلالہ، دتہ خیل اور ایبٹ آباد کے واقعہ کے بعد تعلقات میں خرابی پیدا ہوئی لیکن موجودہ حکومت نے تعلقا تکو سیکیورٹی کے شعبہ تعلقات کو وسعت دے کر اور امریکہ کے ساتھ تعلقات تجارت، ثقافت، کلچرل اور اسٹریٹیجک تعلقات سمیت دیگر شعبوں تک تعلقات کو وسعت دی، وزیراعظم نواز شریف نے دو امریکہ کے دورے کئے اور امریکی صدر اوباما نے کہا کہ تعلقات کو اگلی جنریشن تک بڑھانا چاہتے ہیں اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھی بات کی، جون میں امریکہ میں دو کانفرسیں ہوں گی ایک بزنس کیلئے دوسری دیامر بھاشا ڈیم کیلئے ہو گی کے حوالے سے ہو گی،افغانستان کے امن کیلئے امریکہ چار ملکی رابطہ گروپ میں شامل ہے، گزشتہ تین ماہ میں تعلقات میں تعطل آیا، امریکی کانگریس کے ایف 16 طیاروں کی فنانسنگ روکنے پر اس کی جھلک سامنے آئی، اس کے پیچھے امریکہ کے مطالبات بھی شامل ہیں، نیوکلیئر ایشوز کے حوالے سے امریکی مطالبہ ہم نے مسترد کیا ہے، شکیل آفریدی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے، حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے وہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہم ان کو سپورٹ کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ٹھوس ثبوت نہیں دیئے، افغانستان میں طالبان نے سپرنگ حملوں کا آغاز کیا اور کابل میں حملے کے بعد مذاکرات میں تعطل آیا، اس میں اختلافی نقطہ نظر سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے امن کے حوالے سے چار ملکی رابطہ گروپ کی اگلی ٹیگ 19,18مئی کو اسلام آباد میں ہو گی، پاکستان نے بھارت کی جانب سے اسلحہ کی دوڑ کو بڑھانے کے حوالے سے ڈیل کی جانب توجہ دلائی ہے پاکستان خطہ میں اسلحہ کی دوڑ کے خلاف ہے اور اب تک صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے، مختلف چیلنجز کو نمٹنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، خارجہ پالیسی کی سمت صحیح ہے،خارجہ پالیسی کے ذریعے معاشی ترقی پر توجہ دے رہے ہیں، علاقائی ممالک کے ساتھ رابطوں کیلئے بھی حکومت کام کر رہی ہے،تاپی، کاسا1000 اور پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے اس کی مثال ہیں، قومی سلامتی اور ملکی مفاد پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سنجیدہ معاملہ ہے انہوں نے دفاع اور خارجہ کمیٹیوں کی مشترکہ کمیٹی بنا کر معاملہ اس کو ریفر کر دیا ہے۔6 نومبر 2015 کو وزارت خارجہ نے سینیٹ کو تجویز دی تھی کہ امریکہ کے چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ کر پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دوں،22 مارچ 2016 کو امریکہ کے چیئرمین سینیٹ کو خط لکھ دیا تھا، موجودہ صورتحال کے تحت میں صورتحال کا جائزہ لے رہا ہوں کہ نظرثانی کی جائے،قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کے بعد اس حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔