ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب میں ملکی تعلیمی صورتحال کے بھرپور احاطہ کرتی ہے، ڈاکٹر مجاہد کامران

بدھ 11 مئی 2016 21:17

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 مئی۔2016ء) وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مجاہد کامران نے کہا ہے کہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنی کتاب ”ایجوکیشن پالیسیز ان پاکستان“ میں ملکی تعلیمی صورتحال کے بارے میں تمام سوالات کا احاطہ کیا ہے اور یہ کتاب میری اپنی ضرورت تھی کہ ملک میں کونسی تعلیمی پالیسیاں بنیں اور کب آئیں۔

وہ پنجاب یونیورسٹی ادارہ تعلیم و تحقیق کے زیر اہتمام ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب میں وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر شاہد صدیقی، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ایجوکیشن ڈاکٹر روف اعظم، ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن پروفیسر ڈاکٹر ممتاز اختر، ڈاکٹر رفاقت علی اکبر، اساتذہ اور طلبا و طالبات نے بڑی تعدادمیں شرکت کی۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی نے اپنی کتاب میں نشاندہی کی ہے کہ 1967 میں ہر شہری کے لئے کم از کم پرائمری تعلیم یافتہ ہونے کا خواب دیکھا گیا جو کہ آج تک پورا نہیں ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں پر اتنی جامع کتاب ان کی اپنی ضرورت بھی تھی جو پوری ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کتاب میں پالیسیوں کے عدم تسلسل اور عملدرآمد نہ ہونے کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسیوں میں اس لئے بھی تسلسل نہیں ہے کہ ہماری بیوروکریسی کا نظام ایسا ہے کہ کوئی بھی بیورو کریٹ ایک محکمہ میں نہیں رہتا اور اسی وجہ سے نتائج پیدا نہیں ہو رہے اس سلسلے میں اصلاحات ہونی چاہئیں اگر کسی بیوروکریٹ کو ترقی دینی ہو تو اسی محکمے میں اس کا گریڈ بڑھا دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب پنجاب یونیورسٹی کے ہر استاد کو لازمی پڑھنی چاہئیے اور ان کی اس کتاب سے ادارہ تعلیم و تحقیق کے طلباء و طالبات بہت ذیادہ استفادہ کر سکتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کہا کہ تعلیم کا بنیادی مقصد تبدیلی لانا اور ترقی لانا ہے مگر ترقی کی تعریف یہ ہے کہ ہمیں تین آزادیاں میسر ہوں، سوچنے کی آزادی، اظہار کی آزادی اور انتخاب کی آزادی۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم فرد کی زندگی میں تبدیلی کا نام ہے جو معاشری کی زندگی کو تبدیل کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رٹا سسٹم کی بدولت ہم اچھے طلباء پیدا نہیں کر پا رہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم سے ذہن کو کھلنا چاہئے انہوں نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں تصورات پر کھلی بحث ہونی چاہئے اور اساتذہ میں اختلاف کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے جبھی طلباء میں تنقیدی سوچ پیدا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ کو مطالعے کی وسیع عادات اپنانی چاہئیں اور اپنے مضمون کے علاوہ دیگر مضامین پر بھی پڑھنا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ ایسی کتاب لکھی جائے جس میں ملک کی تعلیمی پالیسیوں کا نقشہ پیش کیا جائے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یونیورسٹی آف ایجوکیشن کے وائس چانسلر روف اعظم نے کہا کہ یہ کتاب آنے والی نسلوں کے لے مشعل راہ ہے کیونکہ یہ پاکستان میں تعلیم کی تاریخ پر بہترین کتاب ہے اور ملک کی تعلیمی پالیسیوں میں جو خوبیاں اور خامیاں تھیں اور اہداف حاصل نہ کرنے کی جو وجوہات تھیں انہیں بیان کیا گیا ہے۔ لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر عظمیٰ قریشی نے کہا کہ کتاب میں ملک کے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے سچی تنقید کی گئی ہے اور راستہ دکھایا گیا ہے کتاب میں اس تعلیمی سفر کے بارے میں بتایا گیا ہے جو 1947 سے شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری تعلیمی پالیسیاں اچھی تھیں تاہم اصل مسئلہ ان پر عملدرآمد کا ہے۔ شعبہ انگریزی کے اسسٹنٹ پروفیسر شاہزیب خان نے کہا کہ کتاب میں ڈاکٹر شاہد صدیقی کی جانب سے دی گئی سفارشات پر عمل کیا جائے تو ملک بہتری کی جانب گامزن کیا جا سکتا ہے۔ کتاب میں تعلمی پالیسیز کی خوبیوں اور خامیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے ضمیمہ جات بہت اہم ہیں۔ شعبہ آئی ای آر کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ممتاز اختر نے کتاب کے مندرجات کا مختلف پہلووں سے جامع جائزہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب تدریس کے شعبے سے وابستہ اساتذہ اور طلباء و طالبات دونوں کے لئے یکساں مفید ہے۔