پارلیمانی سیکرٹری کی طرف سے فائزہ ملک کو مخصوص نشست پر آنے کا طعنہ دینے پر اپوزیشن کاشدید احتجاج ،ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ

شاید پارلیمانی سیکرٹری پہلی مرتبہ جواب دے رہے ہیں ،میں تین سالوں سے اس معزز ایوان کی ممبر ہوں ‘ فائزہ ملک مواصلات و تعمیرات ، لوکل گورنمنٹ اور زراعت کے پارلیمانی سیکرٹریز کی ایوان عدم موجودگی اور جوابات نہ آنے پر پر اپوزیشن اراکین طنزیہ ڈیسک بجا تے رہے

پیر 9 مئی 2016 21:16

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔09 مئی۔2016ء ) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری ثقلین انور سپرا کی طرف سے فائزہ ملک کو مخصوص نشست پر آنے کا طعنہ دینے پر اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر دیا ،اجلاس میں اپوزیشن اراکین نے باردانہ کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کیخلاف بھی شدید احتجاج کیا اور سردار شہاب الدین نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ گندم خریداری سنٹرز پر آڑھتیوں کو باردانہ دیا جارہا ہے اس کی انکوائری کرا لی جائے اور اگر یہ بات درست ثابت نہ ہو تو اپنی نشست سے مستعفی ہو جاؤں گا ،کورم پورا نہ ہونے کے باعث سرکاری کارروائی شروع نہ ہو سکی او راسپیکر نے اجلاس آج ( منگل ) صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت تین بجے کی بجائے 43منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں صوبائی وزیر چوہدری شیر علی نے کان کنی و معدنیات ، پارلیمانی سیکرٹری ثقلین انور سپرا نے اوقاف و مذہبی امور اور اکمل سیف چٹھہ نے محکمہ تحفظ ماحولیات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے ۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی فائزہ احمد ملک کے سوال کے جواب میں پارلیمانی سیکرٹری ثقلین انور سپرا نے کہا کہ محکمے کی اراضی اور دکانوں سے کرائے اور لیز کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کم ہونے کی بات کسی حد تک ٹھیک ہے ۔

موجودہ رولز کے مطابق ہم اس پر نظر ثانی نہیں کر سکتے تھے اس لئے نئے سرے سے رولز بنائے جارہے ہیں اور اسکی سمر ی لاء ڈیپارٹمنٹ کو بھجوا دی گئی ہے جس میں ریٹس موجودہ وقت کے مطابق وصول کرنے کیلئے رولز تبدیل کئے جائیں گے۔ صوبائی وزیر چوہدری شیر علی نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ صوبہ بھر میں معدنیا ت تلاش کرنے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کے ٹھیکوں میں توسیع کی جاتی ہے بصورت دیگر اس میں ہرگز توسیع نہیں کی جاتی۔

پیپلز پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی فائزہ احمد ملک نے ضمنی سوال میں کہا کہ سرکاری اراضی کو محکمہ اوقاف اور ریلوے اپنی اپنی ملکیت قرار دے رہے ہیں جبکہ اس پر ناجائز قابضین بھی بیٹھے ہوئے ہیں ،جب ایسے معاملات ہوں گے تو اﷲ ہی حافظ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی کے مطابق کوئی بھی سرکاری ملازم ایک سیٹ پر تین سال سے زائد عرصہ تک تعینات نہیں رہ سکتا لیکن محکمہ اوقاف کا زونل مینیجر 2008ء سے اسی سیٹ پر تعینات ہے اور وہ اپنے بھانجے جو محکمہ میں کلرک ہے اس کے ساتھ مل کر پراپرٹی کا کاروبار کر رہا ہے اور محکمے کی زمین پر قبضے کرا کے اسے فروخت کر رہا ہے جب تک محکمے کے لوگ ملوث نہ ہو ایسا کرنا ممکن نہیں ۔

پارلیمانی سیکرٹری ثقلین انور سپرا نے کہا کہ فاضل رکن اپوزیشن سے تعلق رکھنے کی وجہ سے الزام در الزام لگا رہی ہیں ۔ جس پر فائزہ ملک نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے سوالات جمع کراتی ہوں ۔ میں تنقید برائے تنقید نہیں کرتی بلکہ اصلاح کیلئے سوال دیتی ہوں اگر ہم تنقید نہیں کریں گے تو محکموں کا برا حال ہو گا جسکے حکومت پر بھی اثرات مرتب ہوں گے اور پھر وہی حال ہوگا جو موجودہ حکومت کا آج حال ہے ۔

انہوں نے کہا کہ شاید پارلیمانی سیکرٹری پہلی مرتبہ جواب دے رہے ہیں اور میں تین سالوں سے اس معزز ایوان کی ممبر ہوں ۔ جس پر پارلیمانی سیکرٹری ثقلین انور سپرا نے کہا کہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں تیسری مرتبہ منتخب ہو کر اس ایوان میں آیا ہوں جبکہ آپ پرائیویٹ ممبر ( مخصوص نشست ) پر آئی ہیں ۔ پارلیمانی سیکرٹری کے ان ریمارکس پر تحریک انصاف کی نبیلہ حاکم علی اور سعدیہ سہیل رانا بھی اپنی نشست پر کھڑی ہو گئیں اور کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری نے خواتین کو پرائیویٹ ممبر کہہ کر توہین کی ہے ۔

اس دوران حکومتی اراکین نے اپوزیشن اراکین کے مقابلے میں شور شرابہ شروع کیا تو نبیلہ حاکم علی نے کہا کہ آپ کی بھی توہین کی گئی ہے ۔ اسپیکر رانا محمد اقبال نے پارلیمانی سیکرٹری کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تحمل سے بات کیا کریں اور اسپیکر نے تمام الفاظ کارروائی سے حذف کرا دئیے ۔ حکمران جماعت کی خاتون رکن اسمبلی عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری نے کوئی غلط بات نہیں کہی ۔

ایوان میں الزامات لگائے گئے ہیں اور گیم کھیلی جارہی ہے۔ فائزہ ملک نے کہا کہ پارلیمانی سیکرٹری نے توہین کی ہے اور اسپیکر صاحب آپ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ پارلیمانی سیکرٹری بدتمیزی کر رہا ہے ۔ جس پر اسپیکر نے کہا کہ آپ معزز رکن ہیں اور وہ بھی معزز رکن ہیں جس پر اسپیکر نے دوبارہ کہا کہ یہ الفاظ کارروائی کا حصہ نہ بنائے جائیں اور اسپیکر نے انہیں کارروائی سے حذف کرا دیا ۔

اسی دوران اپوزیشن اراکین نے شورشرابہ کرتے ہوئے ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر دیا جس پر اسپیکر نے کہا کہ ’’بس یہی کام رہ گیا ہے ‘‘، یہ رویہ ٹھیک نہیں ہے واپس آجائیں ۔اسپیکر اسمبلی کی ہدایت پر حکومت کے ترجمان زعیم حسین قادری اور سینئر پارلیمنٹرین انیس قریشی اپوزیشن کو ایوان میں منا کر واپس لائے ۔ اپوزیشن کی ایوان میں عدم موجودگی پر عظمیٰ زاہد بخاری نے کہا کہ الزام لگا دیا گیا ہے اب پارلیمانی سیکرٹری کو جواب دینا چاہیے ایسا نہیں ہو سکتا کہ اب اپوزیشن کے انتظار میں ہاتھ باندھ کر بیٹھ جائیں۔

زعیم قادری نے واپس آ کر کہا کہ ہمیں بھی خیال رکھنا چاہیے ،اپوزیشن کا کردار ہے اور سوال پوچھنا ان کا حق ہے ۔فائزہ ملک نے کہا کہ میں ہمیشہ ایوان میں آرام سے بات کرتی ہوں لیکن انہوں نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ یہاں کچھ لوگوں کو آگ لگی ہوئی ہے اور یہ آگ بجھانی ضروری ہے ۔ میں ایمانداری سے سوالات جمع کراتی ہوں اور مجھے اطلاعات ملی تھیں تو میں نے سوال جمع کرایا جبکہ یہاں وزراء جھوٹ پر جھوٹ بتاتے آ رہے ہوتے ہیں ۔

جس پر اسپیکر نے انہیں کہا کہ ایسی بات نہ کریں آپ بھی معزز ہیں اور وزراء بھی معزز ہیں ۔اس موقع پر فائزہ ملک نے حکمران جماعت کی خاتون رکن کے حوالے سے بات کی تو اسپیکر نے انہیں سختی سے روکتے ہوئے تمام الفاظ کارروائی سے حذف کرا دئیے ۔ سردار شہاب الدین نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ باردانہ کی تقسیم کا جو میکنزم بنایا گیا ہے یہ انصاف پر مبنی نہیں۔

سنٹرز پر جا کر دیکھیں مڈل مین اور آڑھتی باردانہ لے کر جارہے ہیں اور غریب کاشتکار دھکے کھا رہا ہے ۔ محکمہ خوراک اور ڈی سی او کی ملی بھگت سے آڑھتیوں کو باردانہ جارہا ہے ۔یہ صرف ایک جگہ نہیں بلکہ پورے جنوبی پنجاب میں یہی حال ہے اور کاشتکار مر چکا ہے ۔صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سردار شہاب الدین کی جو خواہش تھی وہ آہستہ سے کہہ گئے ہیں۔

انہوں نے سنی سنائی بات یہاں آ کر کہہ دی ہے ،کوئی ایک بھی سنٹرہے تو اس کی نشاندہی کریں ۔ سردار شہاب الدین نے کہا کہ خلیل طاہر سندھو نے جواب دیا ہے لیکن انہیں کیا یہ بھی معلوم ہے کہ گندم کس موسم میں کاشت ہوتی ہے ۔ آج کسان 1100روپے من پر گندم بیچنے پر مجبور ہو چکا ہے ۔ صوبائی وزیر چوہدری شیر علی نے کہا کہ سردار شہاب الدین نے جو بات کی ہے وہ بالکل غلط ہے ۔

ہر سنٹر پر گرداوری کی لسٹ آویزاں ہیں اور اس میں جن کاشتکاروں کے نام ہیں انہیں ہی باردانہ دیا جاتا ہے ۔ پہلے دس دن بارہ ایکڑ سے کم رقبے والے والے کسان کو باردانہ دیا گیا ہے ۔ کسانوں کی شکایات پر امسال محکمہ مال کے عملے کو بھی شامل نہیں کیا گیا ۔ سردار شہاب الدین نے کہا کہ میں چیلنج کر کے کہتا ہوں کہ انکوائری کر الیں اور جو نام میں بتا رہا ہوں اگر وہ آڑھتی نہ ہو تو میں اپنی نشست سے مستعفی ہو جاؤں گاورنہ وزیر مستعفی ہو جائیں۔

چوہدری شیر علی نے دوبارہ جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو آڑھتی ہے وہ کاشتکار بھی ہو اور اس نے گندم کاشت کی ہو اور اس کیلئے اسے باردانہ دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ گرداوری کی فہرست میں کسی کانا م نہ ہو اور اسے باردانہ جاری کیا گیا ہو ۔ تحریک انصاف کے علی رضا دریشک نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو اپرپنجاب سے نہ ملایا جائے ہمارے حالات یہاں سے مختلف ہیں ۔

کاشتکاروں کو باردانے کی ایک بوری نہیں ملی ،کم از کم کسانوں کو جوتے تو نہ مارے جائیں ۔ چوہدری شیر علی نے کہا کہ حکومت نے پہلے میرے جیسے اور ان جیسے بڑے زمینداروں کے لئے گندم خریداری شروع نہیں کی بلکہ کم رقبے والے کاشتکاروں سے گندم خریدی کی جارہی ہے ۔پنجاب اسمبلی میں قائد حز ب اختلاف میاں محمو دالرشید نے پوائنٹ آف آڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ قومی خزانے سے 43کروڑ روپے گورنمنٹ ہاؤس مری پر خرچ کیا جارہا ہے جبکہ ہم تین سال سے رو رہے ہیں کہ نئی اسمبلی کی عمارت کے لئے فنڈز دئیے جائیں جس پر اسپیکر نے کہا کہ فنڈز موجود ہیں ،100 روز تو آپ کی سکیوٹی کی وجہ سے کام رک جاتا ہے ۔

میاں محمود الرشید نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں وینٹی لیٹرز نہیں او ربچے سسک رہے ہیں ۔ حکومت کی ترجیحات ٹھیک نہیں ، اگر شریف برادران اپنی جیب سے لگائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔ اسی دوران اسپیکر نے توجہ دلاؤ نوٹس پر کارروائی کا آغاز کیا تو عامر سلطان چیمہ کا توجہ دلاؤ نوٹس ان کی عدم موجودگی کے باعث نمٹا دیا گیا جبکہ احمد خان بھچر کا موخر کر دیا گیا ۔

۔ تحریک التوائے کار پیش کرنے کے موقع پر صرف داخلہ کے پارلیمانی سیکرٹری ایوان میں موجود تھے لیکن ان سے متعلقہ دو تحاریک کا جواب نہ آنے پر انہیں آئندہ ہفتے کیلئے موخر کردیا گیا ۔ اس دوران اسمبلی سیکرٹریٹ سٹاف کی طرف سے بھاگ ،بھاگ کر تحریک التوائے کار کی کاپی پارلیمانی سیکرٹری داخلہ اعجاز عچلانہ کو لا کر دینے پر اسپیکر نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اعجاز عچلانہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو پہلے کاپی نہیں ملی جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے ابھی ملی ہے ۔

اسپیکر نے کہا کہ آپ کے دفتر میں گئی ہو جس پر انہوں نے کہا کہ وہاں بھی نہیں پہنچی جس پر اسپیکر نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی سے کہا کہ اسے چیک کر کے مجھے ابھی بتایا جائے ۔ مواصلات و تعمیرات ، لوکل گورنمنٹ اور زراعت کے پارلیمانی سیکرٹریز کی ایوان عدم موجودگی اور جوابات نہ آنے پر پر اپوزیشن اراکین طنزیہ ڈیسک بجا تے رہے ۔

اس دوران حکمران جماعت کے رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے اپنی نشست پر بیٹھے ہوئے آواز بلند کی کہ پارلیمانی سیکرٹریز کی تنخواہیں نہ بند کر دیں۔ قائد حزب اختلاف میاں محمو دالرشید نے دوبارہ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ فافن کی حالیہ رپورٹ میں کرپشن میں پنجاب ٹاپ و ٹاپ جارہا ہے ۔ میں اس پر وزیر اعلیٰ ،رانا ثنا اﷲ اور کابینہ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

یہ ایک سنگین معاملہ ہے ،میں نے اس پر تحریک التوائے جمع کرائی ہے ،اسے آؤٹ آف ٹرن لیا جائے او راس پر ایوان میں بحث کرائی جائے جس پر اسپیکر نے کہا کہ آپ کو طریق کار معلوم ہے ۔ جس پر محمو دالرشید نے کہا کہ اسمبلی سیکرٹریٹ کی کارکردگی سب دیکھ رہے ہیں ۔ اسی دوران اسپیکر نے سرکاری کارروائی کا آغاز کر دیا اور رانا ثنا اﷲ خان آرڈیننس ایگریکلچرل ، فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی پنجاب 2016ء ایوان میں پیش کرنے کیلئے اپنی نشست سے اٹھے ہی تھے کہ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی آصف محمود نے کورم کی نشاندہی کر دی اور کورم پورا نہ ہونے پر پانچ منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی گئیں اور دوبارہ گنتی پر بھی حکومت تعداد پوری نہ کر سکی جس پر اسپیکر نے اجلاس آج (منگل ) صبح دس بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔

متعلقہ عنوان :