بلوچستان حکومت کو سالانہ ترقیاتی پروگرام سے 20 ارب روپے کے جو فنڈ دیئے گئے وہ صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی سکیم نہ دینے کی وجہ سے لیپس کر گئے، 20 ارب ضائع کرنے والے اس منصوبے کے لئے 8 ارب روپے مانگیں تو یہ سوچنے کی بات ہے، سولر ٹیوب ویلوں سے پانی بے تحاشا ضائع کیا جائے گا اس لئے اس منصوبے پر نظرثانی کی ضرورت ہے

وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف کا سینیٹ میں قرارداد کی مخالفت میں اظہار خیال

پیر 9 مئی 2016 17:24

اسلام آباد ۔ 9 مئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔09 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بلوچستان حکومت کو پی ایس ڈی پی سے 20 ارب روپے کے جو فنڈ دیئے گئے وہ صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی سکیم نہ دینے کی وجہ سے لیپس کر گئے، ہم بلوچستان میں زرعی مقاصد کے لئے نصب کئے گئے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے منصوبے کے خلاف نہیں لیکن 20 ارب ضائع کرنے والے اس منصوبے کے لئے 8 ارب روپے مانگیں تو یہ سوچنے کی بات ہے۔

سولر ٹیوب ویلوں سے پانی بے تحاشا ضائع کیا جائے گا اس لئے اس منصوبے پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ پیر کو ایوان بالا میں بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 8 ارب روپے فراہم کرنے کی قرارداد کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے کہا کہ 2014-15ء میں 20 ارب روپے پی ایس ڈی پی سے بلوچستان کو دیئے گئے، یہ تمام فنڈز لیپس کر گئے، صوبائی حکومت نے کوئی سکیم نہیں دی، دبئی میں سولر 3 سینٹ میں نہیں ہے وہاں کی حکومت سبسڈی دے رہی ہے۔

(جاری ہے)

یہاں سولر کافی مہنگا پڑتا ہے۔ بلوچستان حکومت سے ٹیوب ویلوں کی مد میں 106 ارب روپے لینا ہیں، نہ صوبائی حکومت اپنا حصہ دیتی ہے نہ زمیندار دیتے ہیں۔ ٹیوب ویلوں کے لئے سبسڈائز بجلی پر ریستوران بھی چلتے ہیں اور سینما بھی جو 20 ارب ہم نے دیئے تھے، پی ایس ڈی پی کے اس سے یہ منصوبے بنا لیتے۔ صوبائی ذمہ داران کی سنجیدگی اس سے واضح ہے کہ 20 ارب ڈبو دیئے اور ہم سے اب 8 ارب مانگ رہے ہیں۔

سولر ٹیوب ویل لگنے سے پانی بے تحاشا ضائع کیا جائے گا۔ پانی کا زیر زمین ذخیرہ اور نیچے چلا جائے گا، 2، 3 سال میں پانی کی مزید کمی کا سامنا ہوگا۔ بغیر لوازمات کے سولر ٹیوب ویلوں کی کھلی چھٹی نہیں دی جا سکتی، ہم اس منصوبے کے خلاف نہیں لیکن 20 ارب لیپس کر کے 8 ارب مانگنا غیر ذمہ داری ہے۔ اس سکیم کو سائنسی بنیادوں پر پیکیج کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پانی ضائع نہ ہو۔ 3 سال میں ٹرانسمیشن لائنوں کی وجہ سے بجلی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے، کوسٹل ایریاز میں بجلی کی سپلائی کے حوالے سے بھی کافی کام ہوا ہے۔ جاری منصوبوں سے 2018ء میں ملک کی بجلی کی تمام ضروریات پوری کر سکیں گے۔