تمام سیاستدان اپنے آپ کو کرپشن کی تحقیقات کیلئے پیش کریں ،دامن صاف ہے تو کلین چٹ یں‘ ہائیکورٹ بار

سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر ہمیشہ کرپشن کے الزامات لگتے رہے ، پانامہ لیکس نے بد دیانت اور لٹیروں کو بے نقاب کیا ،پانامہ لیکس میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے‘ عاصمہ جہانگیر ، بیرسٹر علی ظفر ، چوہدری محمد حسین ، اعظم نذیر تارڑ و دیگر کا خطاب

جمعہ 6 مئی 2016 18:54

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔06 مئی۔2016ء) لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے مطالبہ کیا ہے کہ تمام سیاستدان اپنے آپ کو کرپشن کی تحقیقات کیلئے پیش کریں اور اگر ان کا دامن صاف ہے تو کلین چٹ لیں ، جسٹس فرخ عرفان خان کے خلاف بھی سپریم جوڈیشل کونسل میں فی الفور کاروائی شروع کی جائے اور جج موصوف کے خلاف کاروائی کے فیصلے تک عدالتی امور سر انجام نہ دیں دیگر صورت میں اس عدالت کا مکمل بائیکاٹ کیا جائیگا۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے جنرل ہاؤس کا اجلاس صدر رانا ضیاء عبدالرحمن کی زیر صدارت منعقد ہوا ۔ اجلاس میں سردار طاہر شہباز خان نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، محمد انس غازی سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، سید اسد بخاری فنانس سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، لاہور کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشنمحمد انس غازی لاہورنے کہا کہ پانامہ لیکس کے زریعے سیاستدانوں ، بیورکریٹس ، جج اور جرنیلوں کے نام آشکار ا ہوئے ۔ ان لوگوں نے ملک کی دولت لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثہ جات بنائے۔ عوام بدحالی اور غربت کا شکار ہیں لیکن یہ بے رحم اور لٹیرے ملک کو لوٹنے میں مشغول رہے۔ اجلاس سے سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن عاصمہ جہانگیر ،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن بیرسٹر علی ظفر ،وائس چیئر مین پنجاب بار کونسل چوہدری محمد حسین ،ممبر پاکستان بار کونسل اعظم نذیر تارڑ ، ممبر پاکستان بار کونسلعابد ساقی ،سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن اسد منظور بٹ ، سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن لاہورشفقت محمود چوہان ،ممبر پنجاب بار کونسل فرہاد علی شاہ ،سابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن احمد اویس ،رائے بشیر احمد ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اور صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے خطاب کیا ۔

مقرر ین نے کہا سیاستدانوں اور بیوروکریٹس پر ہمیشہ کرپشن کے الزامات لگتے رہے ۔ پانامہ لیکس نے بے شک بد دیانت اور لٹیروں کو بے نقاب کیا لیکن پوری دنیا سے پانامہ لیکس نے صرف ایک جج کا ذکر کیا جسکا تعلق پاکستان سے ہے ۔انہوں نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس فرخ عرفان خان کی اپنی جانب یا ادارہ کی جانب سے کوئی واضح مؤقف نہ آیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ کسی صورت برداشت نہیں کرتے کہ کرپشن کے حوالہ سے ہم دوسرے اداروں پر تنقید کریں اور اپنے ادارہ کے جج کے متعلق آواز نہ اٹھائیں ۔

پانامہ لیکس میں جن لوگوں کے نام ہیں ان کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خاتون محتسب اعلیٰ کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ کے فاضل جج کو جاری کردہ So-calledنوٹس خلاف قانون و آئین ہیں اور وکلاء برادری اس کی پر زور مذمت کرتی ہے۔ مقررین نے کہاکہ 70کی دہائی میں ہائیکورٹ کے ایک جج نے ملک کے اندر رجسٹرڈ کمپنی کو ظاہر نہ کیا جس کی بناء پر انہیں ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے لیکن جسٹس فرخ عرفان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 209کے تحت کاروائی نہ ہورہی ہے۔

کیونکہ انہیں کچھ ججز کی پشت پناہی حاصل ہے ۔مقررین نے کہا کہ کچھ جج پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر وکلا ء اور خاص کر نوجوان وکلاء کی بے عزتی کرتے ہیں ایسے ججز کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے اور ان کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کروایا جانا چاہیے۔ احمد اویس صابق صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، لاہورنے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کو یکسانیت سے احتساب کرنا چاہیے۔

2005ء میں سپریم کورٹ نے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے خلاف ایک فیصلہ میں سخت ترین ریمارکس دیے مگر کاروائی نہ کی گئی ۔ جبکہ آج کچھ ہائیکورٹ ججز کو اسی بنیاد پر آرٹیکل209کی کاروائی کا سامنا ہے۔ تمام مقررین نے وکلاء بالخصوص نوجوان وکلاء کے ساتھ ججز کے نامناسب رویہ کی پر زور مذمت کی۔جن ججز کے ناروا اور نامناسب رویے کی مذمت کی گئی ان میں جسٹس شاہد حمید ڈار اور جسٹس مس عالیہ نیلم سر فہرست ہیں۔

آخر پر رانا ضیاء عبدالرحمن صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، لاہورنے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ لیکس میں جن جن سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کا ذکر ہے ان کے بارے میں مکمل چھان بین کرتے ہوئے کاروائی کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ لیکس میں ہمارے ہائیکورٹ کے جج کا نام آنا باعث ندامت ہے ۔ لہٰذا سپریم جوڈیشل کونسل فی الفور مذکورہ جج کے بارے آرٹیکل 209کی کاروائی شروع کرے۔

محمد انس غازی سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن ، لاہور نے متذکرہ بالا قرار داد رائے شماری کیلئے ایوان کے سامنے پیش کیں جنہیں متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔البتہ راحیل کامران چیمہ ایڈووکیٹ کی قرارداد میں ایک ترمیم منظور کی گئی کہ جسٹس فرخ عرفان خان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں فی الفور کاروائی شروع کی جائے اور جج موصوف کے خلاف کاروائی کے فیصلے تک عدالتی امور سر انجام نہ دیں ۔

دیگر صورت میں اس عدالت کا مکمل بائیکاٹ کیا جائیگا۔ اجلاس کے آخر میں رائے بشیر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں وفات پانے والے ہائیکورٹ بار کے ممبران اور ان کے لواحقین کے ایصال ثواب کیلئے دعا کروائی۔ ملک ذیشان احمد اعوان ایڈووکیٹ ہائیکورٹ کی قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پانامہ لیکس کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ لاہور کے فاضل جج جسٹس محمد فرخ عرفان خان کی آف شور کمپنی اور اس کمپنی کے سرمائے کی ترسیل کے حوالے سے خبروں پر فاضل ارکان لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور میں متضاد اور منفی چہ میگوئیاں گردش کر رہی ہیں جو امر لاہور ہائیکورٹ لاہور کے وقار اور احترام کے منافی ہے یہ صورتحال نہ صرف فراہمی انصاف کے اعلیٰ ادارے کے اقدار اور آئینی حیثیت کو متاثر کر رہی ہے بلکہ عوام میں نظام انصاف کے حوالے سے شکوک و شبہات بھی جنم لے رہے ہیں ان حالات میں لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن مطالبہ کرتی ہے کہ مجاز آئینی حکام خصوصاً عدلیہ میں اعلیٰ ترین سطح پر اس صورتحال کا نوٹس لیا جائے اور اصل حقائق سامنے لائے جائیں تاکہ پیدا شدہ غیر یقینی کا خاتمہ ہوا ور وکلاء اور عوام کا اعتماد اعلیٰ عدلیہ پر بحال رہے۔

ایڈووکیٹ سپریم کورٹ اﷲ بخش گوندل کی قرار داد کے متن میں کہا گیا ہے کہ پانا ما لیکس سے پتہ چلا ہے کہ دو سو سے زائد پاکستانی آف شور کمپنیوں اور آف شور اکاؤنٹس کے مالک ہیں۔ ان 200سے زائد پاکستانیوں میں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹوں حسین نواز ، حسن نواز اور بیٹی مریم نواز کے نام شامل ہیں۔ اس سائیبر تہلکے پر پاکستان میں شور اٹھا میاں محمد نواز شریف ہدف ٹھہرے۔

انہوں نے تحقیقات کیلئے ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل کمیشن کا اعلان کیا مگر اسے قبولیت عامہ حاصل نہ ہوئی۔ سیاست دانوں کے مطالبہ پر اب چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کرپشن معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دینے کیلئے چیف جسٹس آف پاکستان کو حکومت پاکستان نے خط لکھ دیا ہے مگر اب سیاست دان ٹرمز آف ریفرنس پر معترض ہیں اور اس کے کور میں اپنی کرپشن کی انکوائری یا تحقیقات سے بچنا چاہتے ہیں اور صرف میاں محمد نواز شریف اور انکی فیملی کی کرپشن کی تحقیقات کروانا چاہتے ہیں۔

لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن بذریعہ قرارداد تمام سیاستدانوں سے مطالبہ کرے کہ وہ اپنے آپ کو کرپشن کی تحقیقات کیلئے پیش کریں۔ اگر ان کے ذہن اور دامن صاف ہیں تو کلین چٹ لیں اور قوم کی رہنمائی کے حق دار ٹھہریں خاص طور پر میاں محمد نواز شریف ، حسین نواز ، حسن نواز ، مریم نواز ، میاں محمد شہباز شریف، حمزہ شہباز شریف ، سابق صدر آصف علی زرداری اور اس دور کے وزراء اعظم سید یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، سابق صدر جنرل پرویز مشرف اس دور کے وزراء اعظم میر ظفر اﷲ خان جمالی، چوہدری شجاعت حسین ، شوکت عزیز، پارلیمانی پارٹیوں کے سینئر رہنماء یعنی اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ، عمران خان، جہانگیر ترین، علیم خان ، چوہدری پرویز الٰہی ، چوہدری مونس الٰہی، مولانا فضل الرحمن، اکرم درانی، سراج الحق، اسفند یار ولی، محمد امیر خان ہوتی، غلام احمد بلور، شیخ رشید احمد، الطاف حسین، بابر غوری، ڈاکٹر فاروق ستار، آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور محمود خان اچکزئی اور جج صاحبان کی انکوائری/تحقیقات ہوتا کہ پاکستان سوسائٹی مطمئن ہو پائے۔

چار مارشل لائی ادوار اور محمد علی بوگرہ سے لے کر اب تک 17سول ادوار میں (جن میں عبوری سیٹ اپ شامل نہ ہیں) منظم کرپٹ کلاس جو سیاستدانوں ملٹری بیورو کریٹس اور سول بیورو کریٹس پر مشتمل ہے ملک پر قبضے کے بعد اس کی زمینی اور مالی دولت لوٹ چکی ہے جو ہزاروں خاندانوں پر مشتمل ہے۔ یاستدان جو کرپٹ کلاس کا حصہ ہیں ٹرمز آف ریفرنس کے کور میں انکوائری یا تحقیقات سے بچنا چاہتے ہیں ان کی اس سکیم یا چال کو ناکام بنایا جائے۔

متعلقہ عنوان :