حکومت تجارت اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے،5ارب کی لاگت سے پشاور میں ایکسپو سنٹر قائم کیا جا رہا ہے ،اس سے وسطی ایشیا میں تجارت کو فروغ ملے گا اوربر آمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گا ، دنیا میں ہونے والی اہم کانفرنسوں میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرائی جاتی ہے ، صنعتی پیداوار بڑھانے کیلئے صنعتوں کو 24 گھنٹے بجلی و گیس کی سپلائی جاری ہے ،وفاقی وزیر خرم دستگیر کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کوبریفنگ

ٹڈاپ کے معاملات اورنمائشوں پر آنیوالے اخراجات کا جائزہ لینے کیلئے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی

جمعرات 5 مئی 2016 21:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔05 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر نے کہا ہے کہ حکومت تجارت اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھا رہی ہے،5ارب کی لاگت سے پشاور میں ایکسپو سنٹر قائم کیا جا رہا ہے جس سے سنٹرل ایشیا میں تجارت کو فروغ ملے گا اورایکسپورٹ میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو گاجس سے نہ صرف ایکسپورٹرز فائدہ اٹھائیں گے بلکہ مقامی صنعتکاروں ا ور زمینداروں کو بھی فائدہ ہو گا، دنیا میں ہونے والی اہم کانفرنسوں میں پاکستان کی بھرپور نمائندگی کرائی جاتی ہے تاکہ تجارت و ایکسپورٹ میں بہتری ہو سکے ، صنعتوں کو 24 گھنٹے بجلی و گیس کی سپلائی جاری ہے تاکہ ملک میں صنعتی پیداوار کو فروغ دیا جاسکے ۔

وہ جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے چیئر مین کمیٹی سینیٹر سید شبلی فراز کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں بریفنگ دے رہے تھے ۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایکسپورٹ شدہ اشیاء کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اختیار کئے گئے میکنزم ،وزارت کامرس کے بجٹ اور ٹڈاپ کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز مفتی عبد الستار،حاصل خان بزنجو،محمد عثمان خان کاکڑ،سلیم مانڈوی والا،روبینہ خالد، کریم ا حمد خواجہ، حاجی سیف اللہ خان بنگش کے علاوہ وفاقی وزیر برائے تجارت خرم دستگیر ،سیکرٹری کامرس عظمت علی رانجھا،ایڈیشنل سیکرٹری کامرس میاں آذاد ،ایڈیشنل سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی،ڈی جی پی ایس کیو سی اے،سی ای او ایکسپو لاہور،سیکرٹری این ٹی سی ،سی ای او ایف ڈی بی کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔

جوائنٹ سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی نے قائمہ کمیٹی کو امپورٹ آئٹمز کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے اختیار کئے گئے طریقہ کار بارے تفصیل سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ تین بنیادی ادارے پی سی ایس آئی آر ، پی ایس کیو سی اے ،اورپی این اے سی اشیاء کے معیار کو بہتر بنانے کیلئے پالیسی اختیار کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہپی ایس کیو سی اے ، 1996میں قائم ہوئی جسکا بنیادی کام اشیاء کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔

اس کے لئے بین الا قوامی کانفرنس میں شرکت کر کے بین الا قوامی مارکیٹ میں پاکستانی اشیا کی جگہ بنانا ہے۔ یہ ادارہ علاقائی تنظیموں کاممبر بھی ہے اور اشیاء کے معیار کو بہتر بنا کر تجارت اورایکسپورٹ کو فروغ دینا ہے۔ پی سی ایس آئی آر کے حوالے سے کہا گیا کہ یہ1973میں قائم ہوئی اس کی 22لیبز ہیں جنکا کام کوالٹی چیک کرناہے۔کراچی میں ایک موبائل ٹیسٹنگ لیب ہے ۔

اس ادرے میں 400اقسام کے ٹیسٹ کئے جا سکتے ہیں۔پی این اے سی کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ1998 میں قائم کی گئی جس کے ذریعے امپورٹ اور ایکسپورٹ کی ایکریڈیشن کی سرٹیفیکٹ جاری کرتا ہے۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ جب تک پاکستانی اشیاء او ر اجناس کا معیار بین الا قوامی مارکیٹ کے معیار کے مطابق نہیں ہوگا تب تک ایکسپورٹ میں بہتری نہیں آئیگی۔اسکو بہتر بنانے کیلئے متعدد سیمنارز ،کانفرنسز،ورکشاپس کا انعقاد کیا جا رہا ہے تاکہ تجارت اور ایکسپورٹ کو فروغ دیا جا سکے۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایسے قدامات اٹھائے جائیں کہ دور دراز کے کسانوں اور صنعت کاروں کو بہتر معیار کے متعلق آگاہی فراہم کی جا سکے تاکہ انکا فائدہ ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اور اس کے قرب و جوار کے علاقو ں میں اعلی قسم کی کھجور ہوتی ہے مگر شعور و آگاہی کی کمی کی وجہ سے سستی فروخت کی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پیکنگ اور مارکیٹنگ بہتر کرنے سے بھی معاملات میں بہتری آ سکتی ہے انہوں نے کہا کہ ادارے ہمیں بہتر تجاویز دیں اگر قانون سازی کی بھی ضرورت ہے توکی جائیگی۔

متعلقہ اداروں کو ایکسپورٹ اور تجارت کے فروغ کیلئے بنیادی کردار ادا کرنا ہو گا۔سینیٹر حاصل خان بزنجو نے کہا کہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ کولڈ سٹوریج سسٹم قائم کریں۔قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تربت اور مکران کے علاقوں میں سولر ڈی ہائیڈریٹ سسٹم لگائے جا رہے ہیں بعد میں پورے بلوچستان میں پھیلا یا جائیگا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹریڈ پالیسی کا اعلان مارچ2016میں کر دیا گیا تھا اور عمل درآمد اور ایکسپورٹرز کی بہتری کیلئے ہر مہینے اسکا جائزہ لیا جاتا ہے۔

پالیسی کیلئے فنڈز موجود ہیں اور پالیسی میں بہتر انسٹوز کاا علان بھی کیا گیا تھا۔سینیٹر سیلم مانڈوی والا نے کہا کہ جب تک ایکسپورٹرز کے مسائل وزارت حل نہیں کریگی تمام سٹیک ہولڈر زان کے مسائل نہیں سنے گی پالیسی پر عمل درآمد مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کا شعبہ وزیر نہ ہونے کی وجہ سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔یہ قائمہ کمیٹی حکومت سے سفارش کرے کہ وفاقی وزیر کامرس کو ٹیکسٹائل کا چارج بھی دیا جائے تاکہ ٹیکسٹائل شعبے کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں ا ور کوئی بہتر عملدرآمد کرایا جا سکے۔

نیشنل ٹیسٹنگ کمیشن ایک موزانہ تیار کرے کہ قانون سازی کے بعد کتنی بہتر ی آئی ہے۔قائمہ کمیٹی کوو زارت کامرس کے بجٹ کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا تو سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہاکہ اجلاس کو متعلقہ ادارے کے ہیڈ وائز بجٹ اور اسکے استعمال کی تفصیلات درکار ہوتی ہیں جو معلومات درکار ہوتی ہیں و ہ ناکافی ہیں۔آئندہ اجلاس میں تفصیلی رپورٹ تیار کر کے پیش کی جائے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پشاور سے تعلق رکھنے والے ایکسپورٹرز نے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختون خواہ ایک دہائی سے دہشت گردی کے شکار ہیں۔جس کی وجہ سے ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہیں اور حکومت کی طرف سے جو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں وہ سٹیٹ بنک کے سسٹم کا سنٹرالزڈ ہونے سے صارفین کوعلم ہی نہیں ہوتا۔ خیبر پختون خواہ میں پانچ سال سے ریلوے سسٹم نہیں ہے ڈرائی پورٹ خالی پڑے ہیں۔

جب تک منسٹر سے لے کر وزارت کے حکام ہماری نہیں سنیں گے معاملات میں بہتر ی نہیں آئیگی۔جس پر سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایک ایسا ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے جس میں تمام سٹیک ہولڈرز ایکسپورٹرز کے ساتھ ملکر لائحہ عمل تیار کریں اور ایسا میکنزم تشکیل دیا جائے جس سے چاروں صوبوں کی نمائندگی شامل ہو۔انہوں نے کہا کہ ٹڈاپ کا کردار کہیں نظر نہیں آتا ہماری ان تک رسائی ممکن نہیں ہے تو ایکسپورٹز کو کیا ٹائم دیتے ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹز نے ایک نمائش کا انعقاد کیا ہے جس میں وزارت کے اعلی حکام تک نظر نہیں آئے اور انکے اخراجات کے پیسے بھی نہیں دئے گئے۔وفاقی وزیر آئے تھے اور چلے گئے تھے ان کے اخراجات ادا کئے جائیں۔چیئرمین کمیٹی سید شبلی فراز نے سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی۔جو ٹڈاپ کے نمائشوں کیلئے اٹھائے گئے اخراجات اور ٹڈاپ کے معاملات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریگی۔