خورشید شاہ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ ٹی او آرز وزیر اعظم کو بھجوا دیئے

جمعرات 5 مئی 2016 13:58

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔05 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے پاناما لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ ٹی او آرز وزیراعظم نواز شریف کو بھجوا دیئے۔جمعرات کو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھا جس میں پاناما لیکس کی تحقیقات کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے متفقہ طور پر تیار کئے گئے جوڈیشل کمیشن کے ٹی او آرز کی نقل اور مشترکہ اعلامیہ بھی منسلک کیا گیا ہے۔

اپوزیشن لیڈ کی جانب سے وزیراعظم کو بھیجے گئے خط میں لکھا گیا کہ ٹی او آرز تمام اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طور پر تیار کئے ہیں لہذا حکومت ان ٹی او آرز پر عمل درآمد کے لئے ضروری اقدامات یقینی بنائے۔خط میں اپوزیشن جماعتوں کے معاملہ پر ہونے والے اجلاسوں کی روداد بھی شامل ہے ۔

(جاری ہے)

اس سے قبل اپوزیشن لیڈر نے چیئرمین سینٹ رضا ربانی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد سے ملاقاتوں میں وزیر اعظم کو بھجوائے خط پر بھی مشاورت کی ۔

اپوزیشن کے ٹی اوآر ز میں کہاگیا کہ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو غلط ثابت کرنا ہوگا ‘ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ خود کو تحقیقات کیلئے کمیشن کے سامنے پیش کریں ‘ نواز شریف 1985 سے 2016 تک جائیداد کی تفصیلات فراہم کریں ‘ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کے ذرائع آمدن کیا تھے، کن بینک اکاوٴنٹس میں رقم رکھی گئی؟ کیا اس آمدن پر انکم ٹیکس ادا نہیں کیا جانا تھا؟ بیرون ملک خریدی گئی جائیدادوں کیلئے رقم کن بینک اکاوٴنٹس، کس تاریخ پر ادا کی گئی؟ کمیشن کو آف شور اکاوٴنٹس میں بھیجی گئی رقم کی تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔

کیا وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ دسمبر 2000 کے بعد اسٹیٹ گیسٹ تھے؟ خصوصی کمیشن عالمی فرانزک آڈٹ کیلئے ماہرین کی کمیٹی بھی مقرر کرسکے گا۔ ماہرین کی کمیٹی آف شور کمپنیوں کیلئے رقم کی مکمل چھان بین کرے گی۔ نیب اور ایف آئی اے سمیت تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے۔اپوزیشن کی جانب سے پیش کیے گئے ٹی او آرز حکومت پہلے ہی مسترد کرچکی ہے۔

حکومت کی جانب سے کمیشن کے لیے مندرجہ ذیل ٹرمز آف ریفرنس مقررکیے گئے تھے۔ کمیشن پاکستانی شہریوں ‘پاکستانی نژاد غیر ملکیوں اور اداروں سے پاناما یا کسی اور ملک میں آف شور کمپنیوں سے متعلق تحقیقات کرسکے گا۔ کمیشن کو موجودہ یا پھر سابقہ عوامی عہدوں کے حامل افراد سے بھی تحقیقات کا اختیار ہوگا جنہوں نے سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے یا اہل خانہ کے قرضے معاف کرائے یا پھر کرپشن، کمیشن یا کک بیکس کے ذریعے کمائی گئی رقم ملک سے باہر بھجوائی ‘ انکوائری کمیشن اس بات کا تعین کرے گا کہ کیا پاناما لیکس کے الزامات کے مطابق کسی پاکستانی قانون کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں ‘ انکوائری کمیشن کو ٹیکس ماہرین اور اکاؤنٹنٹ سمیت کسی بھی شخص کو طلب کرنے کا اختیار ہوگا۔

کمیشن کسی بھی قسم کی دستاویز طلب کرسکے گا انکوائری کمیشن کے سربراہ کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ مجاز افسر کو کسی بھی عمارت یا مقام میں داخلے اور مطلوبہ ریکارڈ کے حصول کے احکامات دے سکے گا ‘ انکوائری کمیشن کی تمام کارروائی عدالتی کارروائی تصور ہوگی۔ تمام وفاقی اور صوبائی ادارے کمیشن کی معاونت کے پابند ہوں گے ‘ تحقیقات کب اور کہاں ہوں گی اس کا فیصلہ انکوائری کمیشن خود کرے گا کابینہ ڈویژن انکوائری کمیشن کو دفتری خدمات فراہم کرے گا۔