حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا

اپوزیشن کو متفقہ ٹی او آرز کیلئے حکومت سے بات چیت کرنے کی دعوت حکومت نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کئے مگر اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کیس میڈیا پر چلتا رہے الزام اور بہتان روز لگتے رہیں ، کچھ لوگ انا پرسی اور ضد بازی پر اتر ے ہوئے ہیں ،چوہدری نثار علی خان

بدھ 4 مئی 2016 20:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔04 مئی۔2016ء) حکومت نے اپوزیشن کے ٹی او آرز کو غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے اور اپوزیشن کو دعوت دی ہے کہ وہ متفقہ ٹی او آرز کیلئے حکومت سے بات چیت کرے ، حکومت نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کئے مگر اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی، کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کیس میڈیا پر چلتا رہے الزام اور بہتان روز لگتے رہیں ، کچھ لوگ انا پرسی اور ضد بازی پر اتر ے ہوئے ہیں ،اپوزیشن سب کے سامنے دیواریں کھڑی نہ کرے اور سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کیا جائے ، اپوزیشن کا ایک حصہ وزیراعظم پر الزامات کی بوچھاڑ کر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے ، سپریم کورٹ جس طرح چاہے تحقیقات کر سکتی ہے اس پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ ٹی او آرز کے اندر رہتے ہوئے تحقیقات کرے، اپوزیشن کے غیر آئینی اور بد نیتی پر مبنی ٹی او آرز سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں ۔

(جاری ہے)

بدھ کو پنجاب ہاؤس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد اور وزیراعظم کے مشیر برائے انسانی حقوق بیرسٹر ظفر اﷲ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ کچھ مخصوص لوگوں کی یادداشت محدود ہے یا محدود کر دی جاتی ہے پانامہ لیکس میں صرف وزیراعظم کے بچوں کے نہیں بلکہ دنیا کے اہم ترین افراد اور دیگر لوگوں کی تفصیلات آئی ہیں مگر اس پر سب سے پہلا رد عمل وزیراعظم نواز شریف کا آیا اور وزیراعظم خود قوم سے مخاطب ہوئے ۔

کچھ سینئر اکابرین کا خیال تھا کہ اس میں وزیراعظم کا نام شامل نہیں لہذا وہ اس حوالے سے کوئی بات نہیں کریں لہذا وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ۔ وزیراعظم کے خطاب کی روشنی میں جسٹس تصدق حسین جیلانی ، جسٹس ناصر الملک ، جسٹس ساحر علی سمیت کئی ججوں سے کمیشن کی سربراہی کیلئے بات کی گئی اگر کچھ سچ چھپانا ہوتا تو حکومت ان ججوں سے رابطہ نہ کرتی یہ حکومت کی نیک نیت اور شفافیت کی مثال ہے کہ حکومت نے ان نیک نام ججوں سے کمیشن کی سربراہی کیلئے رابطہ کیا تمام ججوں نے وقت مانگا اور پھر ایک ایک کر کے معذرت کر لی کہ وہ کمیشن کا حصہ نہیں بن سکتے کیونکہ اپوزیشن کے بیانات نے معاملے کو سنگین بنا دیا تھا ۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ پھر اپوزیشن کی طرف سے ایف آئی اے سے انکوائری کا مطالبہ آیا جس کو تسلیم کرتے ہوئے میں نے کہا کہ اپوزیشن خود بتائے کہ وہ ایف آئی اے کے کس افسر سے انکوائری کرانا چاہتی ہے ۔ مگر اس مطالبے سے بھی اپوزیشن پیچھے ہٹ گئی پھر پارلیمانی کمیٹی سے انکوائری کا مطالبہ آیا اس پر بھی ہم نے ہاں کر دی لیکن اپوزیشن اس سے پیچھے ہٹ گئی پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھنے کا مطالبہ آیا اور حکومت نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ یہ کیس میڈیا پر چلتا رہے الزام اور بہتان روز لگتے رہے لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کیس کو الزام تراشی کی نظر نہیں ہونا چاہئے ملک میں آزاد عدلیہ ہے جس پر سب کو اعتماد ہے کچھ لوگ انا پرستی اور ضد بازی پر اترے ہوئے ہیں وہ بتائیں کہ ملک میں سپریم کورٹ سے اعلیٰ کون سا ادارہ ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جن لوگوں نے ستیا ناس کیا ہر روز ایک نیا سکینڈل ہوتا تھا وہ اس پر کیا کیا بات کر رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ اگر ان کیخلاف رتی بھر بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو وہ فوری طور پر گھر چلے جائیں گے ۔ اس وقت اپوزیشن کا ایک حصہ وزیراعظم پر الزامات کی بوچھاڑ کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے کیا سپریم کورٹ کسی سے ڈکٹیٹ ہو سکتی ہے ۔ سپریم کورٹ جس طرح چاہے انکوائری کر سکتی ہے اس پر کوئی قدغن نہیں کہ وہ ٹی او آر زکے اندر رہ کر تحقیقات کرے ۔

سپریم کورٹ کے پاس لا محدود اختیارات ہیں انہوں نے کہا کہ میں سابقہ ادوار کا ذکر نہیں کرتا کہ بہت سے لوگ ناراض نہ ہو جائیں اپوزیشن سچ کو سامنے آنے دے سچ کے سامنے دیواریں کھڑی نہ کرے اور سپریم کورٹ کو ڈکٹیٹ نہ کیا جائے چوہدری نثار نے کہا کہ وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے بچے کمیشن کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرائیں گے کیا حکومت سپریم کورٹ پر اثر انداز ہو سکتی ہے کھل کر بات کریں تاکہ پتہ چلے کہ آپ کس پائے کے وکیل یا سیاستدان ہیں وزیر داخلہ نے کہا کہ لندن سفر کے دوران عمران خان سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور پھر اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دی گئی انہوں نے کہا کہ یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہر چیز کا الزامات حکومت پر لگایا جائے کسی کو ’’ٹھُڈا‘‘ بھی لگتا ہے تو حکومت کا نام لگا دیتا ہے ۔

گرمی یا سردی بڑھ جائے تو یہ بھی حکومت کے ذمے لگا دیا جاتا ہے مجھے پتہ چلا ہے کہ عمران خان نے جلسے منسوخ کر دیئے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ پنجاب پولیس کے لوگ پی ٹی آئی کی خواتین کو پریشان کرنے میں ملوث ہیں وزیرداخلہ نے پیشکش کی عمران خان اپوزیشن کی ایک کمیٹی بنا لیں جس میں نادرا اور میڈیا کے نمائندے شامل ہوں وہ خواتین سے بدتمیزی کے معاملے کی تحقیقات کرے میڈیا ہمیں ان لوگوں کی تصاویر مہیا کرے ہم نادرا کے ذریعے چن چن کر ایسے لوگوں کو پکڑیں گے ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ملک میں دیگر جماعتوں کے بھی بہت بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں لیکن صرف پی ٹی آئی کے جلسوں میں خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے عمران خان اپنے گھر کو دیکھنے کی بجائے دوسروں پر الزامات لگا رہے ہیں جن لوگوں کی آف شور کمپنیاں ہیں اور ٹیکس چوری کے معاملات ہیں وہ اچھل اچھل کر دوسروں پر الزامات لگا رہے ہیں اور انگلیاں اٹھا رہے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ تحقیقات کا آغاز مجھ سے کیا جائے اب ہم کون سا طریقہ سامنے رکھیں اپوزیشن مطالبہ کرتی ہے کہ وزیراعظم اپنے اثا ثے ظاہر کرے جب کہ اپوزیشن کو پتہ ہے کہ وزیراعظم نے اپنے اثاثے پہلے ہی ظاہر کر رکھے ہیں جو الیکشن کمیشن کو بھی دیئے گئے ہیں اور وہ سب کے سامنے ہیں کسی سے کھ نہیں چھپایا گیا ۔ چوہدری نثار نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کئے لیکن اپوزیشن ہر مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن سنجیدہ تحقیقات نہیں چاہتی بلکہ وہ اس معاملے کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اپوزیشن نے ٹی او آرز میں ہر چیز نئی بنانے کا مطالبہ کیا ہے صرف یہ نہیں لکھا کہ نیا سپریم کورٹ بنایا جائے۔ اپوزیشن کا مقصد ایک شخص کو الزامات کا نشانہ بنانا ہے ۔ اپوزیشن کے رہنماؤں کی بچوں کی بھی آف شور کمپنیاں سامنے آئی ہیں مگر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو ان کے بچوں کی ہیں اس پر کوئی بات نہ کی جائے ۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم سب اﷲ کو جوابدہ ہیں اس کا مطلب ہے کہ سچ بولا جائے ۔

اس موقع پر وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ حکومت نے 22 اپریل کو چیف جسٹس کو خط لکھا کہ وہ پانامہ لیکس کے حوالے سے کمیشن بنائیں اور اگر ممکن ہو تو اس کمیشن کی سربراہی بھی خود کریں بعد ازاں ہم نے جو ٹی او آرز بنائے اس میں تمام امور کی تحقیقات کا احاطہ کیا گیا ہے حمود الرحمان کمیشن سے لے کر ایبٹ آباد کمیشن کے تمام ٹی او آرز حکومت نے بنائے ہیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز میں جو فقرے استعمال کئے ہیں اس سے اپوزیشن کی بد نیتی ظاہر ہوتی ہے آئی سی آئی جے نے بھی وضاحت کر دی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کا نام پانامہ پیپرز میں شامل نہیں اپوزیشن چاہتی ہے کمیشن نہ بنے اور حقائق عوام کے سامنے نہ آئیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سوچا تھا کہ اپوزیشن مثبت تجاوی لے کر آئی گی مگر ایسا نہیں کیا گیا بلکہ غیر آئینی بد نیتی پر مبنی تجاویز لائی گئی ہیں جس سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں ۔

چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا پوری حکومت اس دل و جان سے قبول کرے گی اپوزیشن سچ سامنے لانے میں رکاوٹ نہ بنے اپوزیشن نے حکومت کے ٹی او آرز مسترد کر دیئے تھے ہماری درخواست ہے کہ ہدف کرپشن ہونا چاہئے کسی ایک شخصیت کو نہ کیا جائے اگر حکومت اپوزیشن میں اتفاق نہ ہوا تو یہ کیس آگے نہیں بڑھ سکے گا چوہدری نثار نے اپوزیشن کو دعوت دی کہ آئیے مل بیٹھ کر متفقہ ٹی او آرز بنائیں پریس کانفرنس کی جنگ ختم ہونی چاہئے ہم نے ایک کمیٹی بنا دی ہے جو ٹی او آرز کے معاملے پر اپوزیشن سے بات چیت کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میری عمران خان سے فضائی سفر کے دوران ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئی ہیں ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی ہم نے اپوزیشن کے ٹی او آرز باقاعدہ طور پر موصول نہیں ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس پر کوئی پھڈا نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں اپوزیشن انٹی نواز شریف منشور سامنے لے کر آئی ہے ملک میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی جب ایک موجودہ وزیراعظم نے اپنے آپ کو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں پیش کیا ہے ۔

اپوزیشن احتساب یا کرپشن کو پانامہ لیکس سے منسوب کرتی ہے ایسا نہیں ہونا چاہئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے کرپشن میں ملوث لوگوں کیخلاف فوری کارروائی شروع کی تو یہ الزام لگایا جائے کہ یہ انتقام لیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اخلاقیات کمیٹی کے قیام کی تجویز دوں گا تاکہ تمام ارکان پارلیمنٹ کی تحقیقات ہوں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ثالث کے طور پر سپریم کورٹ کو منتخب کیا ہے جمہوری نظام میں تو یہی ہوتا ہے وزیراعظم کے بچے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان دینگے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ زاہد حامد صدر مشرف کے نہیں بلکہ شوکت عزیز کے وزیر تھے اور منتخب نمائندے تھے ۔