قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیاں

سیکرٹری داخلہ آئندہ اجلاس میں نہ آئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرینگے،محمد افضل کھوکھر

بدھ 4 مئی 2016 16:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔04 مئی۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے حکومتی یقین دہانیاں میں غیر قانونی افغانی مہاجرین کے بارے میں بات چیت ہوئی‘ جس میں چیئرمین محمد افضل کھوکھر نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ بار بار بلانے پر بھی کمیٹی میں پیش نہیں ہوئے انہیں آخری بار نوٹس بھیجا جائے اگر اگلی میٹنگ وہ پیش نہیں ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں گے۔

کمیٹی میں تجویز دی گئی کہ ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی حلقے کے تمام لوگوں کو نہیں پہچانتے نادرا فارم پر ان کی تصدیق کی شرط ختم ہونی چاہئے۔ بدھ کے روز قائمہ برائے حکومتی یقین دہانیاں کا اجلاس چیئرمین محمد افضل کھوکھر کی زیر صدارت ہوا جس میں غیر قانونی مہاجرین پر بات کرتے ہوئے نادرا حکام نے کہا کہ غیر قانونی مہاجرین کی رجسٹریشن کے لئے نادرا اور سیفران نے مکمل تیاری کر لی ہے۔

(جاری ہے)

سیکرٹری داخلہ کا کمیٹی میں پیش نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ زیر التواء ہے جس پر چیئرمین نے کہا کہ سیکرٹری کو آخری بار نوٹس جاری کیا جائے وہ کمیٹی کے بار بار بلانے پر پیش نہیں ہوئے اگلی میٹنگ میں پیش نہ ہوئے تو ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کئے جائیں گے۔ ملک ابرابر تجویز دی کہ نادرا فارم پر ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی کی تصدیق کی شرط ختم ہونی چاہئے جس پر چیئرمین نے کہا کہ ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی اپنے حلقے کے تمام لوگوں کو نہیں پہچانتے مگر جس وقت وہ تصدیق کے لئے آتے ہیں ہم انہیں انکار بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ہمیں انہی سے پھر ووٹ مانگنا ہے۔

کمیٹی کی تجویز تھی کہ نادرا فارمز پر ممبر قومی و صوبائی اسمبلی کی شرط ختم کر کے کونسلر‘ نمبردار یا چیئرمین زکواہ کمیٹی سے تصدیق کروائی جائے کیونکہ وہ لوگ فرداً فرداً سب کو جاتے ہیں۔ ملک ابرابر نے نادرا حکام سے پوچھا کہ نادرا فارم پر ایک شق موجود ہے جس کے تحت کوئی فیملی ممبر اور خونی رشتہ فارم کی تصدیق کر سکتا ہے مگر نادرا والے اسے نہیں مانتے جس پر نادرا حکام نے جواب دیا کہ ان کی نادرا دفتر میں موجودگی ضروری ہے اور بائیومیٹرک کے ذریعے تصدیق کی جاتی ہے صرف دستخط نہیں مانے جا سکتے۔

نادرا حکام نے کہا کہ ہم آسانی کی طرف جا رہے ہیں اگر کوئی شناختی کارڈ بنوانے والا اگر اپنے فیملی ممبر کو ساتھ لائے تو اس کی اسی وقت نادرا دفتر میں تصدیق ہو کر فارم لے لیا جاتا ہے۔ نادار حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ نادرا کا رجسٹریشن سسٹم بہت بہترین اور اچھا ہے اس وقت چھیالیس ممالک نادرا کا بنایا ہوا رجسٹریشن سسٹم استعمال کر رہے ہیں اور 34 پروجیکٹ بیرون ممالک نادرا کے چل رہے ہیں۔

چوہدری محمد منیر اظہر نے کہا کہ میں نے نادرا کے آفس کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے میرے حلقے میں نادرا کا آفس قائم کیا جائے تحصیل ہیڈ کوارٹر وہاں سے پچاس کلو میٹر دور ہے تحصیل آفس میں صرف 100 ٹوکن جاری کئے جاتے ہیں پچاس کلو میٹر کا سفر طے کر کے جب کوئی وہاں تک پہنچتا ہے تو سو ٹوکن جاری ہو چکے ہوتے ہیں۔ سید ساجد مہدی نے کہا کہ نادرا کے پاس موبائل وینز کی تعداد کم ہے اگر موبائل وینز کی تعداد بڑھائی جائے تو اس مسئلے پر کسی حد تک کر قابو پایا جا سکتا ہے سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس ڈویژن نائلہ قریشی نے کمیٹی کو بتایا کہ حکومت نے اقلیتوں کی سیٹیں بڑھانے کی یقین دہانی کروائی تھی اور کہا تھا کہ یہ سیٹیں آبادی کے تناسب سے بڑھائی جائیں گی۔

آسیہ ناصر نے قومی اسمبلی میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا تھا جس کی حکومت نے بہت سپورٹ کی تھی اور الیکٹرول ریفارمز کمیٹی میں بھی یہ مسئلہ زیر بحث ہے جس پر عبدالمجید خان نے کہا کہ پارٹیاں پابند ہوں باقی دنیا میں یہ سسٹم موجود ہے اور ہمارے ہاں سے بہت بہتر جمہوریت چل رہی ہے جس طرح سے خواتین کی سیٹیں ہیں اسی طرح اقلیتوں کی بھی ہونی چاہئیں اور ہر پارٹی 33 فیصد خواتین اور اقلیتوں کو بھی مناسب انداز سے نمائندگی دینے کی پابند ہو۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ الیکٹ ہونے اور مخصوص سیٹوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ملک ابرار نے کہا کہ الیکشن کے ذریعے آنے والوں پر بہت بوجھ ہوتا ہے جبکہ مخصوص سیٹوں والے اپنے مسئلے مسائل میں الجھے رہتے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی نے یہ کہتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا کہ مردم شماری التواء کا شکار ہو گئی ہے اس لئے جب تک مردم شماری نہیں ہوتی اس معاملے کو تب تک نہیں دیکھا جا سکتا۔

چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی تجویز دی کہ جو مہاجرین پاکستان میں نسلوں سے آباد ہیں ان کے شناختی کارڈ بننے چاہئیں۔ ملک ابرار نے کہا کہ آبادی بہت زیادہ ہو گئی ہے اور شہر کسی پلان کے بغیر بڑھ رہے ہیں افغانیوں کے شناختی کارڈز میں رکاوٹیں ڈالی جا رہی ہیں وہ خاندان جن کے پاس نادرا کے کارڈ موجود ہیں وہ اگر افغانستان سے شادی کرتے ہیں اور پھر اس کے شناختی کارڈ کے لئے اپلائی کرتے ہیں تو ان کے کارڈ بلاک ہو جاتے ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ فیملی کے کچھ افراد کے تو کارڈ ہوں اور دو کے کینسل کر دیئے جائیں۔ جس پر نادرا حکام نے موقف اختیار کیا کہ ہم رجسٹریشن تو کر سکتے ہیں مگر کسی کا کارڈ نہیں بنا سکتے۔ وہ ہائی لیول کا ایشو ہے اس میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ قومی اسمبلی میں پیش کئے گئے اوور سیز سکولوں کے متعلق سوال پر کوئی ذمہ دار پیش نہیں ہوا جس پر اس ایجنڈے کو موخر کر دیا۔

متعلقہ عنوان :