پانامہ لیکس ، وزیر اعظم کے قوم سے دو بار خطاب سے معاملہ سنگین لگتا ہے،خورشیدشاہ

ٹیکس نادہندگی کا مرتکب ہو کر وزیر اعظم اخلاقی جواز کھو چکے ، ضروری ہے کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہو تاکہ پوزیشن واضع ہو سکے پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے پانامہ لیکس، کرپشن ، ٹیکس چوری ، ٹیکس نادہندگی پر واضع طریقہ کار طے کیا ہے،قائدحزب اختلاف

منگل 3 مئی 2016 22:22

پانامہ لیکس ، وزیر اعظم کے قوم سے دو بار خطاب سے معاملہ سنگین لگتا ہے،خورشیدشاہ

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔03 مئی۔2016ء) قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس کے معاملے پر وزیر اعظم کے قوم سے دو بار خطاب سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ معاملہ سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اخلاقی جواز کا تعلق ہے تو آف شور کمپنیوں کے ذریعے ٹیکس نادہندگی کا مرتکب ہو کر وزیر اعظم اخلاقی جواز کھو چکے ہیں۔

اس لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وزیر اعظم کا احتساب ہو تاکہ قوم کے سامنے ان کی پوزیشن واضع ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کا سربراہ خود ٹیکس نا دہندہ بن جائے اور ٹیکس بچانے کیلئے رقوم اَف شور کمپنیوں میں چھپا دے تو پھر عام ادمی سے بھی ٹیکس وصولی کا جواز ختم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام پارٹیاں استعفی کے معاملہ پر متفق ہیں خواہ وہ اخلاقی طور پر ہی مانگیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن کی جماعتوں نے پنامہ لیکس، کرپشن ، ٹیکس چوری ، ٹیکس نادہندگی پر ایک واضع طریقہ کار طے کیا ہے اور اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ قرضوں کی معافی اور نا دہندگی کے معاملات پر بھی شفاف اور بلا تفریق چھان بین کی جائے اور قانون شکنوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ اس ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے خود احتسابی کا مطالبہ کیا ہے اور اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کب اور کیسے احتساب کا جامع عمل شروع کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن نے صحیع معنں وں میں قوم کی ترجمانی کی ہے اور اگر حکومت نے عوامی امنگوں کے مطابق اپنا اور سب کا احتساب کیا تو پھر یہ عمل جمہوریت کیلئے ایک نیک شگون ثابت ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سیاست وقت اور حالات کے مطابق بدلتی ہے اور سیاست میں دوستی اور مخالفت وقت اور حالات کے مطابق ہوتی ہے۔ اس لئے بدلتے ہوئے حالات میں کون کس کے قریب اجائے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے دو سال پہلے یہ تجویز دی تھی کہ حکومتی اقتدار کی مدت پانچ سال سے کم کر کے چار سال کر دی جائے اور میڈیا نے اس تجویز کو سراہا تھا مگر حکومت نے اس تجویز پر توجہ نہ دی مگر اج کے سیاسی حالات سے ظاہر ہے کہ چار سالہ دور اقتدار ہمارے حالات کے مطابق ایک ائیڈیل قدم ہو سکتا ھے۔