متحدہ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے ضوابط کار پر اتفاق کرلیا ٗ وزیر اعظم کے استعفے پر اتفاق نہ ہو سکی

کمیشن تین مہینے میں وزیراعظم اور انکے خاندان کے اثاثوں کی انکوائری کرے ، کمیشن پانامہ لیکس میں شامل دیگر افراد کے اثاثوں کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کرے ٗ تمام رپورٹس پبلک کی جائیں ٗ میڈیا کو بریفنگ

منگل 3 مئی 2016 18:59

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔03 مئی۔2016ء) متحدہ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے ضوابط کار پر اتفاق کرلیا ہے تاہم اے این پی اور قومی وطن پارٹی کی مخالفت کے باعث اپوزیشن وزیراعظم کے استعفے پر متفق نہ ہو سکی ، اپوزیشن کے ضابطہ کار میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے وزیراعظم انکے خاندان کے افراد کی تحقیق و تفتیش ہو ، چیف جسٹس کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا جائے جو تین مہینے میں وزیراعظم اور انکے خاندان کے اثاثوں کی انکوائری کرے ، کمیشن پانامہ لیکس میں شامل دیگر افراد کے اثاثوں کی تحقیقات ایک سال میں مکمل کرے اور تمام رپورٹس پبلک کی جائیں ۔

منگل کو متحدہ اپوزیشن کا اجلاس پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما چوہدر ی اعتزاز احسن کی رہائشگاہ پر ہوا اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر اعتزاز احسن نے بتایا کہ اپوزیشن نے پانامہ لیکس کی تحقیقات کے ضوابط کار متفقہ طور پر تیار کر لئے ہیں پیپلز پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ ، سینیٹر شیری رحمان ، قمر زمان کائرہ نے شرکت کی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے حامد خان شاہ محمود قریشی بیرسٹر ملائکہ بخاری شامل تھی جماعت اسلامی کی نمائندگی اسد اﷲ خان بھٹو مسلم لیگ ق کی طرف سے طارق بشیر چیمہ قومی وطن پارٹی کی جانب سے مسرور شاہ اے این پی کی طرف سے افراسیاب خٹک اور عوامی تحریک کے سربراہی شیخ رشید احمد اور ایم کیو ایم کی جانب سے فاروق ستار نے شرکت کی ۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ فاروق ستار کو جلدی جانا پڑ گیا کیونکہ کراچی میں ان کے کوارڈی نیٹر کی موت واقع ہوئی ہے جس کا ہمیں بہت دکھ اور رنج ہے اجلاس میں ہم نے آفتاب حسین کی مغفرت کیلئے دعا بھی کی ۔ اعتزاز احسن نے بتایا کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کیلئے اپوزیشن نے ضوابط کار طے کر لئے ہیں بنیادی طور پر متحدہ اپوزیشن نے حکومت کے ٹی او آرز کو نا قابل قبول قراردیا ہے آج اس پر اتنا وقت لگا ہے جس کے بعد متفقہ طور پر ٹی او آرز بنائے گئے ۔

انہوں نے کہا کہ احتساب کا عمل شروع ہو اس عمل میں سب سے پہلے وزیراعظم انکے خاندان کی تفتیش اور تحقیقات ہو اس کے بعد پانامہ لیکس میں جتنے بھی نام آئے ہیں ان سب کی انکوائری کی جائے ۔ وزیراعظم کی خاندان کی تفتیش کی جائے جو بین الاقوامی تفتیش ہو گی ۔ وزیراعظم اور انکے خاندان کی بیرون ملک اثاثوں کی تحقیقات کی جائیں کہ یہ کیسے بنے ان پر کتنا ٹیکس دیا گیا کس سال میں املاک خریدیں کون سے ذریعے سے املاک خریدی گئیں وزیراعظم کے بچوں بیگم کے اثاثے بھی ظاہر کئے جائیں ۔

انہوں نے کہا کہ انکوائری اینڈ ٹرائل ایکٹ کے تحت چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن بنایا جائے جو وزیراعظم اور انکے خاندان کے حوالے سے تین ماہ میں فیصلہ کرے جبکہ باقی افراد کافیصلہ ایک سال میں کیا جائے ۔ انکوائری جوں جوں مکمل ہوتی جائے اس کی رپورٹ جاری کی جائے اور اس رپورٹ کو پبلک کیا جائے ۔وزیراعظم کے استعفے کے حوالے سے سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے پر متحدہ اپوزیشن میں اختلاف بھی نہیں اور اتفاق بھی نہیں پیپلز پارٹی وزیراعظم کے استعفے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹے گی ہمیں یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ استعفے کے معاملے پر اتفاق نہیں ہوا ۔

اخلاقی طور پر وزیراعظم کو استعفیٰ دینا چاہئے اس موقع پر پی ٹی آئی کے رہنما حامد خان نے کہا کہ تحریک انصاف کا بھی یہی موقف ہے کیونکہ وزیراعظم کے استعفے کے بعد ہی انکوائری ہو سکے گی۔ اس موقع پر قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اے این پی اور قومی وطن پارٹی کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا کہ وزیراعظم کے استعفے کا ابھی وقت نہیں تحقیقات ختم ہونے کے بعد استعفے کا کہا گیا ۔

ایک سوال کے جواب میں اعتزاز احسن نے کہا کہ وزیراعظم کے استعفے پر اتفاق نہیں لیکن اکثریتی رائے استعفے کی ہے کچھ جماعتوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم کے منصب پر رہنے سے تحقیقات میں فرق نہیں پڑے گا ہر جماعت کا اپنا اپنا موقف ہے اس سے اپوزیشن اتحاد کمزور نہیں ہو گا ایم آر ڈی جب بنی تھی تو اس سے بھی کم نکات پر اتفاق ہوا تھا لیکن پھر بھی وہ کامیاب تحریک تھی ۔ انہوں نے کہا کہ ضوابط کار میں وزیراعظم کے اثاثوں کی تحقیقات کیلئے فارنزک آڈٹ کا کہا گیا ہے 1985 ء سے 2016 ء تک وزیراعظم اپنے ٹیکس گوشوارے ظاہر کریں ۔