عمران فاروق قتل کیس کے ملزم خالد شمیم کی دوران حراست ویڈیو بنانے کے واقعہ کی رپورٹ تیار

نئے انکشاف کے بعد تحقیقات کے لیئے نئی5رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل ،کمیٹی آج سے اپنی کاروائی کا آغاز کرے گی

اتوار 1 مئی 2016 14:25

راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔01 مئی۔2016ء) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کی ہدائیت پرتشکیل کمیٹی نے عمران فاروق قتل کیس کے ملزم خالد شمیم کی دوران حراست ویڈیو بنانے کے واقعہ کی رپورٹ تیار کر لی ہے تاہم ملزم کی جانب سے نئے انکشاف کے بعد تحقیقات میں یو ٹرن آنے سے رپورٹ پر کسی فیصلے کی بجائے کمشنر راولپنڈی ڈویژن عظمت محمود کی سربراہی میں نئی5رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم) تشکیل دے دی گئی ہے امکان ہے کہ یہ کمیٹی آج (بروز پیر)سے اپنی کاروائی کا آغاز کرے گی کمشنر راولپنڈی کی سربراہی میں قائم کمیٹی میں ایڈیشنل سیکریٹری جیل کانہ جات پنجاب ،ڈی آئی جی جیل خانہ جات کے علاوہ ایف آئی اے اور فرانزک لیب لاہور کے ایک ایک نمائندے کو شامل کیا گیا ہے قبل ازیں ویڈیو بنانے کے واقعہ کے بعد وفاقی سیکریٹری داخلہ شعیب صدیقی کی سربراہی میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ہدائیت پر معاملے کی مکمل تحقیقات کے لئے تشکیل کمیٹی کے روبرواڈیالہ جیل میں تحقیقات کے دوران ملزم نے انکشاف کیا تھا کہ اس کی ویڈیو اڈیالہ جیل میں نہیں بلکہ ایف آئی اے کی حراست کے دوران بنائی گئی اور یہ ویڈیو ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزادظفر نے بنائی تھی اور ویڈیو بنانے سے قبل اس کے عقب میں واقع دیوار پر کالا کپڑا ڈالا گیا تھا ملزم نے یہ انکشاف اڈیالہ جیل میں اسوقت کیا تھا جب انکوائری کمیٹی اس سے پوچھ گچھ کر رہی تھی جس پر سپرنٹنڈنٹ جیل اور مذکورہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزادظفر سمیت متعلقہ افراد نے فون ریکارڈ کا فرانزک تجزیہ کروانے کی تجویز پیش کی گئی تھی یاد رہے کہ اس ویڈیو سکینڈل کے لئے نہ صرف وزیر داخلہ نے وفاقی سیکریٹری داخلہ کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر 24گھنٹے میں رپورٹ طلب کی تھی بلکہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے بھی اس پر تحقیقات کا حکم دیاتھاتاہم ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد شہزاداب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ ان کے زیر استعمال تمام موبائل فون فرانزک تجزیئے کے لئے کسی بھی جگہ بھجوا کر تصدیق کر لی جائے ذرائع کے مطابق عمران فاروق قتل کیس کے ملزم 29جنوری 2016سے جوڈیشل ہو چکے ہیں اور ویڈیو بنانے کا واقعہ بھی جیل کے اندر کی کاروائی ہے اس وقت نہ تو مصطفیٰ کمال سیاسی منظر پر تھے اور نہ ہی ان کی پارٹی وجود میں آئی تھی ۔

متعلقہ عنوان :