مراکش دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے امریکہ کوآزادریاست کے طور پر تسلیم کیا۔۔۔

امریکہ نے جن غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ ابتدائی معاہدے کیئے ان میں مراکش، عثمانی طرابلس اور تیونس سمیت مسلمان ممالک دیگرمسلمان ممالک شامل تھے‘ عثمانی سلطنت کے سلطان عبد الماجد خان کا نام واشنگٹن کی یادگار پر تحریر ہے جوکہ امریکہ کے مسلمانوں کے ساتھ گہرے تعلقات کا منہ بولتا ثبوت ہے:واشنگٹن سے خصوصی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 28 اپریل 2016 10:45

مراکش دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے امریکہ کوآزادریاست کے طور پر تسلیم ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28اپریل۔2016ء) امریکہ کے بانی اسلام سے واقف تھے اور انہوں نے جمہوریہ کے آغاز ہی سے مسلمان ممالک کے لیڈروں کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کیے۔ امریکہ اور غیر ملکی طاقتوں کے درمیان جن معاہدوں پر سب سے پہلے دستخط کیے گئے ان میں مراکش، عثمانی طرابلس اور تیونس سمیت مسلمان ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی شامل تھے۔

مذہبی آزادی، امریکی آئین اور حقوق کے بل کا بنیادی حصہ ہے۔ یہ بل شہریوں کے حقوق اور امریکہ میں حکومتی تنظیم کی وضاحت کرتا ہے۔تھامس جیفرسن اور جیمز میڈیسن مذہبی آزادی کے بارے میں بضد تھے اور فروغ پذیر اور جامع جمہوریت کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتے تھے۔ آئین میں ایک شق اس موقف کی یہ کہتے ہوئے حمایت کرتی ہے کہ: عوامی عہدے کے لئے اہلیت پرکھنے کے لئے کبھی کسی قسم کی مذہبی قابلیت کی ہر گز ضرورت نہیں ہو گی۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود 1787 کے دستوری کنونشن کے مندوبین فکر مند تھے کہ ریاستی سطح پر مذہب کی حمایت کو روکنے کے لئے یہ کافی نہیں ہے۔کچھ مخصوص امور کی وضاحت کرنے کے لئے، نو تشکیل شدہ کانگریس نے دستور میں پہلی 10 ترامیم منظور کیں جو حقوق کا بل کہلا تی ہیں۔ پہلی ترمیم میں مذہبی آزادی کی ان الفاظ میں تعریف کی گئی کانگریس کسی مذہب کے قیام کے حوالے سے کوئی قانون نہیں بنائے گی، یا مذہب پرآزادانہ طور پرعمل کرنے کی ممانعت نہیں کرے گی۔

میڈ سن نے کانگریس میں ان ترامیم کی پیروی کی۔ انہوں نے 8 جون 1789 کو حقوق کا یہ بل کانگرس میں پیش کیا اور کسی بھی ریاستی مذہب کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا مذہبی عقیدے یا عبادت کی بناء پر کسی کے شہری حقوق میں تخفیف نہیں کی جائے گی، نہ کوئی قومی مذہب قائم کیا جائے گا، نہ ضمیر کے مکمل اور مساوی حقوق کی کسی انداز میں، یا کسی عذر کی بناءپر، خلاف ورزی کی جائے گی۔

امریکیوں کی بڑی تعداد اس سے متفق تھی۔ ستمبر 1789 میں کانگریس کے دونوں ایوانوں نے مطلوبہ دو تہائی اکثریت سے حقوق کے بل کی توثیق کی اور اس کے ساتھ ساتھ تین چوتھائی ریاستوں نے بھی دسمبر 1791 تک اس بل کی توثیق کر دی۔پہلی ترمیم مذہب اور ریاست کی علیحدگی کو یقینی بناتی ہے۔ جارج واشنگٹن کی صدارتی حلفِ برداری سے بھی پہلے، 1777 میں مراکش پہلا ملک تھا جس نے امریکہ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا اور 1786 میں مراکش نے امریکہ کے ساتھ اولین معاہدوں میں سے ایک پر دستخط کئے۔

مراکش کے ساتھ رشتہ 225 سالوں سے زیادہ عرصے سے پھل پھول رہا ہے۔جان ایڈمز اور تھامس جیفرسن نے مراکش کے سلطان کے ایلچی کو ایک خط لکھا جس میں امریکہ اور مراکش کے درمیان امن اور دوستی کے معاہدے کو حتمی شکل دی گئی تھی۔ انہوں نے اس خط میں اسلامی تقویم کی ہجری تاریخ استعمال کی جب کہ وہ عیسوی تاریخ استعمال کر سکتے تھے۔ انہوں اپنے خط کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کیا تھا واحد قادر مطلق خدا کی پروردگاری، صرف جس کی بادشاہت ہمیشہ سے قائم ہے،آپ عزت مآب کی حفاظت فرمائے۔

صدر کے طور پر جان ایڈمز نے 1797 میں تیونس کے حاکم کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے، جس میں تحریر ہے کہ مذہبی عقائد سے پیدا ہونے والا کوئی بھی عذر کبھی بھی دونوں ممالک کے درمیان موجود ہم آہنگی میں خلل پیدا نہیں کرے گا۔بعد میں آنے والے امریکی صدور نے بھی اسلامی دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات کو قائم رکھا۔ جان کوئنسی ایڈمزنے بطور سینیٹر، امریکہ کے چھٹے صدر اور اپنی صدارت کے بعد کانگریس کے رکن کی حیثیتوں سے اپنے سب ادوار میں، افریقی مسلمانوں سمیت غلاموں کے حقوق کی علمبرداری کی۔

انہوں نے عبد الرحمان ابراہیم ابن ثوری کو آزاد کرانے میں مدد کی اور ان کا وائٹ ہاو¿س میں خیر مقدم کیا۔ صدر ملارڈ فلمور کی جانب سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ دوستی کے اظہار سے، سلطان کو واشنگٹن کی یادگار کے لئے سنگ مرمر کا ایک یادگاری پتھر بطور تحفہ دینے کا خیال آیا۔ اس پتھر پریہ کندہ کیا گیا ہے دونوں ممالک کے درمیان موجود دوستی کو دوام بخشنے کے لئے، عبد الماجد خان کا نام واشنگٹن کی یادگار پر تحریر کیا ہوا ہے۔

اس خراج تحسین کو یادگار کے اندر 60 میٹر کی بلندی پر دیکھا جا سکتا ہے۔ تیونس کے میجر جنرل حسین کی جانب سے تحریر کردہ انسداد غلامی پر ایک خط نے جسے تیونس میں امریکی قونصل نے وزیر خارجہ وِلیم ایچ سیوارڈ کو بھیجا، صدر ابراہام لنکن کو اتنا زیادہ متاثر کیا کہ انہوں نے اس پورے خط کو دوبارہ چھپوا کر وسیع پیمانے پر تقسیم کروایا۔ حسین نے تیونس میں غلامی کے خاتمے اور اس مسئلے پر قرآنی رہنمائی کا ذکر کیا تھا۔

اس خط پر امریکی اخباروں میں وسیع پیمانے پر بحث کی گئی اور انسداد غلامی کے امریکی حامیوں نے اس کی تعریف کی۔ امریکہ میں غلامی کا خاتمہ 1865 میں ہوا۔جیسے جیسے تعلقات کی وسعت میں اضافہ ہوتا گیا، اسی طرح امریکی صدور اور مسلمان راہنماوں کے درمیان تواضع اور مہمان نوازی کا تبادلہ 20 ویں صدی میں جاری رہا۔ نفیس طریقے سے تعمیر کیے گئے واشنگٹن کے اسلامی مرکز کے 1957 میں افتتاح کے موقع پر صدر ڈوائیٹ ڈی آئزن ہاور پہلے امریکی صدر تھے جنہوں نے کسی امریکی مسجد میں خطاب کیا۔

انہوں نے اور ان کی اہلیہ نے اس تقریب کے لئے اپنے جوتے اتارے، جسے نیو یارک ٹائمز نے شہ سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ صدر رچرڈ نکسن نے واشنگٹن کے اسلامی مرکز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر علی ایچ عبد القادر کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا۔ نکسن نے بعد میں دوستی اور احترام کی نشانی کے طور پر مرکز کو مسجد کے لیے شیشے کا ایک لیمپ بھی تحفے میں دیا۔

مسلمان راہنماوں کے ساتھ ان کی نجی خط و کتابت میں تہواروں پر مبارک باد دینا شامل تھا جیسے کہ انہوں نے مصری صدر انور سادات کوعید الضحی کے موقع پر نیک خواہشات کا ایک تار بھیجا تھا۔ جیرالڈ فورڈ امریکہ کے پہلے صدر تھے جنہوں نے 1974 میں سرکاری طور پر اسلامی عقیدے کے ماننے والے تمام امریکیوں کو یہ کہتے ہوئے عید الفطر کا پیغام بھیجا کہ تقریبا 200 سالوں سے ہمارے ملک نے اپنے عوام اور ان کے عقائد کے تنوع سے قوت حاصل کی ہے۔

اس قوت میں آپ کے اپنے مذہبی ورثے کی وجہ سے بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس کے بعد سے عید الفطر پر سالانہ پیغام دینا زیادہ تر صدور کی روایت رہی ہے۔صدر جمی کارٹر نے باربار مسلمانوں کے لئے امریکی احترام کی بات کی۔ 1980 میں اسلامی علماءکے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کا اسلام کے لوگوں کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں ہے، اس کے اسلام کے ساتھ دیرینہ روابط ہیں اور وہ اس مذہب کے اصولوں کا انتہائی احترام کرتا ہے۔

صدر رونالڈ ریگن نے پہلے مسلمان سفیر رابرٹ ڈکسن کرین کو متحدہ عرب امارات میں تعینات کیا اور شیریں طاہر خیلی کو قومی سلامتی کونسل کے لئے نامزد کیا۔ طاہر خیلی نے صدر جارج ایچ ڈبلیوبش اورجارج ڈبلیوبش کے ادوار میں بھی خدمات سرانجام دیں۔ دونوں بش تسلیم کرتے تھے کہ اسلامی اقدار امریکی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔صدر بل کلنٹن نے افریقی نژاد امریکی مسلمان لیڈر ڈبلیو ڈی محمد کو اپنی دونوں بین المذاہب افتتاحی دعائیہ عبادات میں خطاب کرنے کی دعوت دی۔

کلنٹن نے اہم حکومتی عہدوں پر مسلمانوں کا تقرر کیا اور وائٹ ہاوس میں پہلی مرتبہ عید کی تقریب کی میزبانی کی۔صدر براک اوباما نے ملک اور بیرون ملک اپنی تقریروں میں اسلامی دنیا کے ساتھ امریکی تعلقات کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ قاہرہ میں 2009 میں انہوں نے کہا امریکہ اور اسلام اختصاصی نہیں ہیں، اور ان کو ایک دوسرے سے مقابلے کی ضرورت نہیں۔ اس کے بجائے وہ باہم متراکب ہیں اور ان کے اصول مشترکہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے اسلام امریکہ کا ایک جزو ہے۔

متعلقہ عنوان :