متوازی عدالتی نظام قائم کرنے ،آئین کی خلاف ورزی کے الزام میں جماعۃ الدعوۃ کیخلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ

جامع قادسیہ میں شرعی عدالت کے قیام کے خلاف براہ راست ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتا‘ ڈپٹی اٹارنی جنرل کے دلائل

منگل 26 اپریل 2016 22:43

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 اپریل۔2016ء) لاہور ہائیکورٹ نے ملک میں متوازی عدالتی نظام قائم کرنے اور آئین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں جماعۃ الدعوۃ کے خلاف دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔ منگل کے روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن نے کیس کی سماعت کی۔ یہ درخواست سمن آباد کے رہائشی ایک پراپرٹی ڈیلر خالد سعید کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں سیکرٹری داخلہ، وفاقی وزیر قانون، آئی جی پنجاب، سی سی پی او لاہور اور جماعۃ الدعوۃ کے قاضی حافظ ادریس کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کا موقف ہے کہ مجھے جماعۃ الدعوۃ کی مسجد قادسیہ کی جانب سے عدالتی سمن کی طرز کا ایک نوٹس موصول ہوا جس پر دارالقضا الشرعی اور ثالثی شریعی عدالت عالیہ لکھا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

میرے خلاف محمد اعظم نامی شخص نے شکایت کی تھی۔ جس سے میرا لین دین کا تنازعہ ہے۔ 19 جنوری کو جماعۃ الدعوۃ کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹس میں تنبیہ کی گئی کہ اگر میں مسجد قادسیہ میں پیش نہ ہوا تو میرے خلاف یکطرفہ کارروائی کر دی جائے گی اور یہی نہیں مجھے دھمکی آمیز فون بھی آتے رہے ہیں۔

درخواست گزار کی جانب سے استدعا کی گئی کہ جماعۃ الدعوۃ نے ملک میں متوازی عدالتی نظام قائم کر رکھا ہے جو غیر آئینی اور غیر قانونی ہے لہٰذا معزز عدالت کارروئی عمل میں لائے۔ دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اور اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ جامع قادسیہ میں شرعی عدالت کے قیام کے خلاف براہ راست ہائی کورٹ سے رجوع نہیں کیا جاسکتاجبکہ اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ درخواست گزار کو پولیس میں رپورٹ کرنی چاہیے تھی۔ تاہم فاضل عدالت نے دلائل سننے کے بعد دائر درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔

متعلقہ عنوان :