مت کر خاک کے پتلے پہ غرور بے نیازی اتنی ۔۔۔۔خود کو خودی میں جھانک کر دیکھ تجھ میں رکھا کیا ہے

مفکر پاکستان، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا78واں یوم وفات ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منایا گیا

جمعرات 21 اپریل 2016 14:55

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔21 اپریل۔2016ء) مفکر پاکستان، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا78واں یوم وفات گزشتہ روز ملک بھر میں عقیدت و احترام سے منایا گیا ۔ یوم وفات کے سلسلے میں ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقاریب، تقریری مقابلوں، سیمینارز، مذاکروں اور دیگر پروگراموں کا اہتمام کیا گیا جس میں حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی تحریک پاکستان کیلئے عظیم خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔

تاہم سکیورٹی وجوہات کے باعث تمام تقریبات کو منسوخ کردیا گیا،بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کو بھی دوروز کے لئے بند کردیا گیا۔ لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں واقع ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے مزار پر ہر سال 21اپریل کو ان کی برسی کے موقع پر گارڈز تبدیلی کی پروقار تقریب منعقد کی جاتی ہے تاہم اس سال سکیورٹی وجوہات کی بنا ء پر تمام تقریبات کو منسوخ کردیا گیا۔

(جاری ہے)

سکیورٹی خدشات کے باعث علامہ اقبال کے مزار سمیت بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کو بھی دوروز کے لیے بند کردیا گیا ہے۔جبکہ ڈی سی او لاہور کیپٹن (ر) محمد عثمان نے مزار اقبال پر حاضری دے کر پھولوں کی چادر چڑھائی اور فاتحہ خوانی کی ۔ علامہ اقبال 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں شیخ نور محمد کے گھر پیدا ہوئے، ماں باپ نے نام محمد اقبال رکھا۔انہوں نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں ہی حاصل کی اور مشن ہائی سکول سے میٹرک اور مرے کالج سیالکوٹ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔

شعر و شاعری کا شوق بھی آپ کو یہیں پیدا ہوا اور اس شوق کو فروغ دینے میں آپ کے ابتدائی استاد مولوی میر حسن کا بڑا دخل تھا۔ایف اے کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور چلے آگئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے اور ایم اے کے امتحانات پاس کیے۔جس کے بعد 1905ء میں علامہ اقبال اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور قانون کی ڈگری حاصل کی، یہاں سے آپ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ابتدا ء میں آپ نے ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج لاہور میں تدریس کے فرائض سرانجام دیئے لیکن آپ نے بیرسٹری کو مستقل طور پر اپنایا۔وکالت کے ساتھ ساتھ آپ شعر و شاعری بھی کرتے رہے اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور انداز میں حصہ لیا جبکہ 1922ء میں حکومت کی طرف سے سر کا خطاب ملا۔آپ آزادی وطن کے علمبردار تھے اور باقاعدہ سیاسی تحریکوں میں حصہ لیتے تھے اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے۔

سنہ 1930ء میں آپ کا الہ آباد کا مشہور صدارتی خطبہ تاریخی حیثیت رکھتا ہے، اس خطبے میں آپ نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ آپ کی تعلیمات اور قائد اعظم کی ان تھک کوششوں سے ملک آزاد ہوگیا اور پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔لیکن پاکستان کی آزادی سے پہلے ہی 21اپریل 1938ء کو علامہ اقبال انتقال کر گئے تھے تاہم ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پر قوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔

جس نے پاکستان کا تصور پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں میں جینے کی ایک نئی آس پیدا کی۔شاعر مشرق علامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔یہی وجہ ہے کہ کلامِ اقبال دنیا کے ہر حصے میں پڑھا جاتا ہے اور مسلمانانِ عالم اسے بڑی عقیدت کے ساتھ زیرِ مطالعہ رکھتے اور ان کے فلسفے کو سمجھتے ہیں۔اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجاگر کیا، ان کی کئی کتابوں کے انگریزی، جرمنی، فرانسیسی، چینی، جاپانی اور دوسری زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :