صدراوباما کا سعودی عرب کا دورہ ‘کیا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہوسکے گا؟

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 21 اپریل 2016 08:35

صدراوباما کا سعودی عرب کا دورہ ‘کیا دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ..

الریاض(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-خصوصی رپورٹ میاں محمد ندیم۔21اپریل۔2016ء) امریکی صدر براک اوباما نے ریاض میں شاہ سلمان سے ملاقات میں ایران اور اپنے آپ کو دولت اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم کی جانب سے خطرے کے خلاف متحدہ حکمت عملی اپنانے پر اتفاق کیا ہے۔ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ اور خلیجی ممالک کے تعلقات کشیدہ ہیں۔

صدر اوباما اور شاہ سلمان اور دیگر شہزادوں کے درمیان ملاقات دو گھنٹے جاری رہی۔وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ دونوں رہنماوں نے خطے میں جاری تصادم پر بات چیت کی جن پر دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات پائے جاتے ہیں۔صدر اوباما نے شاہ سلمان کے ساتھ ملاقات میں سعودی عرب کا انسانی حقوق کے ریکارڈ کے بارے میں بات کی۔وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ صدر اور شاہ سلمان نے ایران کی جانب سے خطے میں اشتعال انگیز سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال پر بات کی اور دونوں رہنماو¿ں نے کشیدگی کو کم کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا۔

(جاری ہے)

وائٹ ہاو¿س کے مطابق دونوں رہنماوں نے شام میں جاری مسلح تصادم کے خاتمے پر بات کی اور شام میں سیاسی تبدیلی پر اتفاق کیا۔اس سے قبل صدر اوباما نے اپنے ہوٹل میں ابو ظہبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے یمن کے بحران کے سیاسی حل پر زور دیا۔سیکریٹری دفاع ایش کارٹر بھی ان کے ہمراہ ہیں۔ایش کارٹر کا کہنا تھا کہ وہ خطے میں ایران کی ’غیرمستحکم کرنے والی سرگرمیوں‘ کے خلاف فوجی اور سمندری کارروائیوں کے لیے مدد طلب کریں گے۔

رواں ہفتے صدر اوباما برطانیہ اور جرمنی کا دورہ بھی کریں گے۔واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیاں اٹھائے جانے حمایت سے خطے میں ایران کے سب سے بڑے حریف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔دوسری جانب سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا قانون منظور کیا جس کے تحت اگر کسی امریکی عدالت نے سعودی عرب کو 11 ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا۔

امریکی صدر آج خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے سربراہ اجلاس میں شرکت کریں گے اور خلیجی رہ نماﺅں سے باہمی دلچسپی کے امور اور علاقائی تنازعات پر تبادلہ خیال کریں گے۔امریکی صدر ایک ایسے وقت میں خلیجی ممالک کے دورے پر آئے ہیں جب واشنگٹن نے خطے کے ملکوں کو ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر طے پائے سمجھوتے کی نگرانی، خلیج کے امن و استحکام اور تہران کی اشتعال انگیزی روکنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

براک اوباما اور شاہ سلمان کے درمیان یہ پہلی ملاقات نہیں۔ دونوں رہ نما متعدد مواقع پر پہلے بھی ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ یہ ملاقاتیں الریاض اور واشنگٹن کے درمیان گہرے دوستانہ اور دوطرفہ تعلقات کی عکاسی کرتی ہیں۔دونوں رہ نماو¿ں میں 27 جنوری 2015ءکو بھی تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات میں یمن میں حوثی اور سابق صدر علی عبداللہ صالح کی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی آئینی حکومت کے خلاف بغاوت اور یمنی بحران کا موضوع سرفہرست رہا تھا۔

اس کے علاوہ شام ، عراق، ایران کا جوہری پروگرام، دولت اسلامی ”داعش“ کے تیزی سے پھیلتے دہشت گردی کے نیٹ ورک اور فلسطین۔ اسرائیل تنازع پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔دوسری سربراہ ملاقات 4 ستمبر 2015ءکو وائٹ ہاو¿س میں اس وقت ہوئی تھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز امریکی دورے پر واشنگٹن پہنچے تھے۔ اس موقع پر امریکی صدر نے پروٹوکول سے ہٹ کر وائٹ ہاو¿س کے مغربی گیٹ سے خود آگے بڑھ کر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا استقبال کیا تھا۔

اس ملاقات میں بھی دونوں ملکوں میں عسکری تعاون کے فروغ، داعش کی سرکوبی، شام کے تنازع کے پرامن تصفیے، جنیوا مذاکرات کو کامیاب بنانے، بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانے اور عراق میں سیاسی اصلاحات کے نفاذ پر اتفاق کیا گیا تھا۔یمن کے بحران کے حل کے حوالے سے بھی امریکا اور سعودی عرب کے موقف میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ دونوں رہ نماو¿ں نے یمن کے بحران کے حل کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد 2216 پرعمل درآمد کے ساتھ ساتھ خلیجی ممالک کے یمن کے لیے پیش کردہ امن فارمولے پر دونوں ملک متفق ہیں۔

شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر براک اوباما کے درمیان تیسری ملاقات 15 نومبر 2015ءکو ترکی کے شہر انطاکیہ میں پیرس حملوں کے دو روز بعد ’جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پرہوئی تھی۔ اس میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے پیرس حملوں کی مذمت کرتے ہوئے دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کو باہم متحد ہونے پر زور دیا تھا۔سیکریٹری دفاع ایشن کارٹر بھی صدر اوبامہ کے ہمراہ ہیں۔

ایشن کارٹر کا کہنا تھا کہ وہ خطے میں ایران کی غیرمستحکم کرنے والی سرگرمیوںکے خلاف فوجی اور سمندری کارروائیوں کے لیے مدد طلب کریں گے۔رواں ہفتے صدر اوباما برطانیہ اور جرمنی کا دورہ بھی کریں گے۔واضح رہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران پر معاشی پابندیاں اٹھائے جانے حمایت سے خطے میں ایران کے سب سے بڑے حریف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب نے اوباما انتظامیہ اور امریکی کانگریس کے ارکان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انھوں نے کوئی ایسا قانون منظور کیا جس کے تحت اگر کسی امریکی عدالت نے سعودی عرب کو 11 ستمبر کے حملوں کا ذمہ دار قرار دیا تو سعودی عرب امریکہ میں موجود اپنے اربوں ڈالر کے اثاثے فروخت کر دے گا۔جی سی سی ممالک میں سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر اور اومان شامل ہیں۔

ادھرتجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ امریکہ اور سعودی عرب دیرینہ اتحادی ہیں لیکن حالیہ مہینوں میں ان کے درمیان تناو¿ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔صدر اوباما یہ کہہ کر سعودی عرب پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ داعش کے خلاف لڑائی میں درکار تعانو فراہم نہیں کر رہا جب کہ سعودی عرب، ایران کے ساتھ ہونے والے چھ عالمی طاقتوں کے جوہری معاہدے پر نالاں ہے۔

ان طاقتوں میں امریکہ بھی شامل ہے۔امریکہ داعش کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر عراق اور شام میں کارروائیاں کرتا آرہا ہے جب کہ سعود عرب اور دیگر خلیجی ممالک ایران کو خطے کے امن کے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں۔ خلیجی ممالک کی ایک سربراہ کانفرنس میں صدراوبامہ کی شرکت کا مقصد ان شکوک کو رفع کرنا ہے کہ امریکہ آہستہ آہستہ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنے وعدوں سے پھِر رہا ہے۔

کانفرنس میں صدر اوماما خلیجی حکمرانوں کو یقین دھانی کرائیں گے کہ امریکہ انہیں بھ±ولا نہیں ہے اور ان کی پریشانیوں کو سمجھتا ہے۔صدر اوباما کا شاندار روایتی استقبال اور دورے کے دوران ان کے سرکاری بیانات اپنی جگہ، لیکن پس پردہ علامات بڑی واضح ہیں کہ امریکہ اور سعودی عرب کی درمیان گذشتہ 71 سال سے جاری سٹریٹجیک یا کلیدی شراکت داری دباو¿ کا شکار ہے۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دونوں ممالک کے تعلقات واقعی تنزلی کی جانب بڑھ رہے ہیں یا باہمی بددلی کا یہ دور عارضی ہے۔لوگوں کے سامنے سعودی حکام جتنے بھی زیادہ نرم الفاظ استعمال کریں، لیکن اصل میں شاہ سلمان کے ان کے قریبی ساتھیوں کی نظر میں صدر اوباما کی شکل میں جو مہمان ان کے ہاں آیا ہوا ہے وہ اس مایوسی کا پیکر ہے جو سعودی عرب کو موجودہ امریکہ انتظامیہ سے ہے۔

امریکہ سے سعودی عرب کی بیزاری اور شکایتوں کی فہرست میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ فہرست خاصی طویل ہو چکی ہے۔ اس لیے لگتا نہیں کہ صدر اوباما اپنے اس مختصر مگر نہایت اہم دورے میں تمام شکایتیں دور کر سکیں گے۔دوسری جانب صدر اوباما اور ان کی ٹیم بھی کئی معاملات پر سعودی عرب سے بیزار ہے جس کا کچھ اظہار وائٹ ہاو¿س سے جاری ہونے والے حالیہ بیانات میں نظر آتا ہے۔

قصہ مختصر یہ ہے کہ دونوں کے تعلقات منقطع نہیں ہوئے لیکن کم از کم یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں کے درمیان کشیدگی اتنی قدر زیادہ ہو گئی ہے۔آج کل امریکی کانگریس ایک بِل پر غور کر رہی ہے جو سعودی عرب کو قانونی طور پر گیارہ ستمبر 2001 کے دہشتگردی کے حملوں کا ذمہ دار قرار دے سکتا ہے جس سے سعودی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

گیارہ ستمبر کے حملوں میں ملوث 21 دہشتگردوں میں سے 15 افراد سعودی باشندے تھے، لیکن ان حملوں کی تحقیقات کرنے والے ’9/11 کمیشن‘ نے سرکاری سطح پر سعودی عرب کو اس الزام سے بری قرار دے دیا تھا۔ وہائٹ ہاو¿س نے دھمکی دی ہے کہ وہ کانگریس میں اس بِل کو ویٹو کر دےگا۔اطلاعات کے مطابق سعودی عرب نے بھی خبردار کر دیا ہے کہ اگر یہ بِل منظور ہو جاتا ہے تو امریکہ میں موجود اپنے اثاثوں کو فرخت کر دے گا۔

عالمی معاشی ماہرین سمجھتے ہیں کہ ان اثاثوں کی مالیت 750 ارب اور ہزار ارب ڈالر کے درمیان ہے جس کا ایک بڑا حصہ سکیوریٹیز کی شکل میں ہے۔اگر یہ بِل آگے نہیں بھی جاتا تب بھی یہ خیال اوباما انتظامیہ کو بے چین کرنے کو کافی ہے کہ کئی امریکیوں کی نظر میں اس سر زمین پر ہونے والے دہشتگردی کے سب سے بڑے واقعات میں سعودی عرب کا کوئی نہ کوئی کردار ضرور تھا۔

صدر اوباما چاہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں بظاہر ایک دوسرے کے بڑے مخالف، سعودی عرب اور ایران، اپنے باہمی تفرقات ختم کر دیں اور اس خطے میں ’حصہ داری‘ کی بنیاد پر کام کریں۔لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ صدر اوباما کی یہ خواہش جلد پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ایران اور سعودی عرب اپنے اپنے حواریوں کے ذریعے ایک دوسرے خلاف صف آرا ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے س±نّی اتحادی اور ایران کے حمایت یافتہ شیعہ عسکری گروہ ہر دوسرے ملک میں آپس میں دست وگریباں ہیں۔

سعودی سمجھتے ہیں کہ انھیں ہر طرف سے گھیرا جا رہا ہے 2003 میں عراق پر امریکہ کی اندھا دھند چڑھائی کے بعد سعودی پریشان ہیں کہ اب مشرق وسطیٰ کے تین دارالحکومت ( بغداد، بیروت اور دمشق) ایرانیوں کے ہاتھ میں ہیں۔اس کے علاوہ سعودی ایران پر یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ نہ صرف مشرقی سعودی عرب اور بحرین میں پ±ر تشدد شیعہ شورشوں کی پشت پناہی کر رہا ہے بلکہ یمن میں حوثیوں کی تحریک کی بھی مدد کر رہا ہے۔

شیعہ ملیشیا کی کاروائیوں کے علاوہ سعودی عرب ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان حالیہ معاہدے کو بھی نہایت شک کی نظر سے دیکھتا ہے۔سعودیوں کو فکر ہے کہ اقتصادی پابندیاں اٹھنے کے بعد ایران کو جو پیسہ مل رہا ہے اس کا کچھ حصہ ایران کے پاسدارانِ انقلاب کو دیا جائے گا جسے وہ خطے کے مختلف ممالک میں جاری اپنی عسکری کارروائیوں پر خرچ کریں گے۔

ان پریشانیوں کے علاوہ سعودی عرب کو یہ فکر بھی لگی ہوئی ہے کہ واشگنٹن جس مستقبل کی بنیادیں بچھا رہا ہے اس میں خلیج کے علاقے میں امریکہ کا سٹریٹیجک ساتھی سعودی عرب نہیں بلکہ ایران بن جائے گا۔سعودی عرب کی اس فکر کا اظہار امریکہ میں سعودی عرب کے با اثر سفیر شہزادہ ترکی الفیصل ’ایران کی جانب امریکہ کے جھکاو¿‘ کے الفاظ استعمال کر چکے ہیں۔

توقع یہی ہے کہ بدھ اور جمعرات کو سعودی حکام کے ساتھ صدر اوباما کی بات چیت کا سب سے بڑا موضوع ایران کی جانب امریکہ کا مبینہ جھکاو¿ ہی ہوگا۔شاہ سلمان نے صدر اوباما کو کبھی اس بات پر معاف نہیں کیا کہ جب سنہ 2013 میں صدر بشارالاسد کی حکومت پر الزام لگایا جا رہا تھا کہ اس نے اپنے ہی شہریوں کو زیریلی گیس سے ہلاک کیا ہے تو صدر اوباما نے ان پر فضائی حملوں کی حمایت نہیں کی تھی۔

سعودی سمجھتے ہیں کہ صدر اوباما نے اس وقت جس رویے کا مظاہرہ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں فیصلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے اور اگر اس وقت صدر اوباما ہمت دکھاتے تو بعد کے عرصے میں جس اذیت کا سامنا عام شامیوں کو کرنا پڑ رہا ہے وہ نہ ہوتا۔سعودی عرب کو یقین ہے کہ امریکہ شام کے تنازعے کو حل کرنا ہی نہیں چاہتا۔ اسی لیے شام کے معاملے میں سعودی عرب امریکہ کی بجائے ترکی کی س±نّی قیادت اور میدان جنگ میں برسر پیکار اپنے س±نّی عسکری جنگجوو¿ں کے ساتھ اتحاد بنا رہا ہے۔

سرکاری سطح پر سعودی عرب اب بھی امریکی قیادت میں قائم اس اتحاد کا حصہ ہے جو دولت اسلامیہ کے خلاف بنایا گیا تھا اور حال ہی میں سعودی عرب کے جنگی طیاروں کو اسی مقصد کے لیے جنوبی ترکی میں تعینات بھی کیاگیا ہے۔اس سے پہلے فروری میں جرمنی کے شہر میونخ میں سکیورٹی امور پر ہونے والی ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سعودی وزیر خارجہ نے کھ±لے الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ جب تک بشارالاسد حکومت میں ہیں، اس وقت تک دولت اسلامیہ کو شکست نہیں دی جا سکتی۔

لیکن دوسری جانب امریکہ نے بشارالاسد کو اقتدار سےالگ کرنے کی کوششیں نرم کر دی ہیں اور حال ہی میں سعودی عرب نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے سنی ممالک کا اپنا الگ ’اسلامی اتحاد‘ بنا کر خود ہی دہشتگردی سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔یمن میں حوثیوں باغیوں کے خلاف سعودی اتحاد کی جانب سے فضائی کارروائیوں کو شروع ہوئے ایک سال سے زیادہ ہو چکا ہے جس میں دونوں فریقوں کو بھاری مالی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

اس دوران چھ ہزار سے زیادہ یمنی مارے جا چکے ہیں جو تمام فضائی حملوں میں ہلاک نہیں ہوئے۔ تاہم سعودی بجٹ کو اس جنگ کی وجہ سے پانچ ارب 80 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے۔اگرچہ امریکہ کو بے چینی ہے کہ یہ جنگ نہیں جیتی جا سکتی، لیکن اس کے باوجود امریکہ سعودی عرب کو یمن کے حوالے سے خفیہ معلومات، جنگی طیاروں کو ایندھن بھرنے کی سہولت اور دیگر جنگی سامان مہیا کر رہا ہے۔

جب تک یمن میں جنگ جاری رہتی ہے اس وقت تک سعودی عرب اور امریکہ مل کر جنوبی یمن میں القاعدہ کے ٹھکانوں کو ڈرونز کی مدد سے نشانہ بناتے رہیں گے۔مقامی سطح پر تیل اور شیل سے توانائی میں اضافے کے بعد اب وہ دن چلےگئے جب امریکہ اپنی ایندھن کی ضروریات کے لیے مکمل طور پر سعودی عرب پر انحصار کرتا تھا۔اگرچہ اس کے بعد سعودی عرب کے پاس امریکہ کے ساتھ لین دین کی وہ طاقت نہیں رہی، سعودی عرب نے اپنی تیل کی پیدوار میں کمی نہیں کی ہے تا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں اتنی کم رہیں کہ امریکہ میں تیل نکالنے والوں کو اپنے کاروبار میں زیادہ مالی مفاد نظر نہ آئے۔

عالمی منڈی میں تیل کی وافر مقدار سے ایران کو بھی مالی دباو کا سامنا ہے۔ اگرچہ تیل نکالنے کی لاگت کم ہونے کی وجہ سے ابھی تک سعودی عرب اس قابل ہے کہ وہ زیادہ مقدار میں تیل نکالتا رہے، لیکن اپنے بجٹ اور دیگر اخراجات کے لیے اسے بھی جلد ہی اپنے تیل کی قیمت میں اضافہ کرنا پڑ جائےگا۔اگرچہ واشنگٹن اور ریاض ایک دوسرے کے اتحادی بھی رہیں گے اور دونوں کے درمیان اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے بھی چلتے رہیں گے لیکن اب وہ پہلی سی بات نہیں رہی کیونکہ دونوں جانب سے اعتبار میں کمی ضرور آ چکی ہے۔

متعلقہ عنوان :