پی اے سی کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس

وزارت کیڈ کی طرف سے پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر برہمی کا اظہار

بدھ 20 اپریل 2016 13:49

اسلام آباد ۔ 20 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔20 اپریل۔2016ء) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ذیلی کمیٹی نے وزارت کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ کی طرف سے پی اے سی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک وزارت کی کسی سابق پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی اس وقت تک مالی بے ضابطگیوں اور سرکاری فنڈز میں خوردبرد کا سلسلہ نہیں رکے گا، وزارت کو چاہیے کہ وہ تمام زیرالتواء آڈٹ اعتراضات محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کے ذریعے نمٹائیں تا کہ انہیں پی اے سی میں زیربحث لانے کی نوبت ہی نہ آئے۔

اجلاس بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں کیمٹی کے کنوینر رانا افضال حسین کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی کے ارکان محمود خان اچکزئی اور میاں عبدالمنان کے علاوہ متعلقہ سرکاری اداروں کے افسران نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں وزارت کیپیٹل اینڈ ایڈمنسٹریشن ڈویلپمنٹ کے 1999 ، 2000-01 ، 2004-05 ، 2005-6 ، 2006-07 اور2008-09 کے زیرالتواء آڈٹ اعتراضات پر عملدرآمد کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ غیرقانونی طور پر آئی پی ایس ای ٹی اور این ٹی ٹی ٹی سی میں روزانہ اجرت پر کام کرنے والے گریڈ 4کے ملازمین کو گریڈ 12میں تعینات کرنے سے سرکاری خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔کمیٹی کے ارکان نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قاعدے اور قانون کو مدنظر رکھا جائے ۔ کمیٹی نے حکم دیا کہ اس معاملے کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کر کے تین ماہ میں ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے اور پی اے سی کو اس کی رپورٹ پیش کی جائے۔

ایک اور آڈٹ اعتراض کے جائزے کے دوران کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ جب تک کسی وزارت کے سابق پرنسپل اکاؤنٹنگ افسر کے خلاف کارروائی نہیں ہو گی، بے قاعدگیاں نہیں رکیں گی۔ پی اے سی نے سیکرٹری کیڈ کی توجہ اس جانب دلائی کہ اسلام آباد گرلز کالج کی انتظامیہ بچیوں کو امتحان کے قریب رول نمبر سلپ کے اجراء سے قبل غیرقانونی طور پر جرمانوں کی مد میں فیس بٹور رہی ہے۔

یہ طالبات کو بلیک میل کرنے کے مترادف ہے۔ کمیٹی نے سیکرٹری کیڈ کو اس معاملے کے دستاویزی ثبوت فراہم کئے اور ہدایت کی کہ اس معاملے کی پندرہ دنوں میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کی جائے۔ مالی سال 2004-05ء کے حسابات کے مطابق وفاقی نظامت تعلیمات کی جانب سے فیس کی مد میں جمع ہونے والی 2کروڑ 26لاکھ روپے سے زائد کی رقم کے خلاف ضابطہ استعمال پر ہدایت کی گئی کہ ایک ماہ کے اندر اس معاملے کی تحقیقات کی جائے۔

آڈٹ حکام نے پی اے سی ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ 2005ء میں اسلام آباد کے سکولوں میں بچوں سے حکومتی پالیسی کے برعکس 65لاکھ روپے ٹیوشن فیس کی مد میں وصول کئے گئے۔ نظامت تعلیمات کی طرف سے پروفیسر طارق مسعود نے بتایا کہ صرف ایک مرتبہ بچوں کے والدین کے مطالبہ پر گرمیوں کی چھٹیوں میں برائے نام 200 سے 250روپے ماہانہ ٹیوشن کی سہولت فراہم کی گئی۔ کمیٹی کے کنوینر رانا افضال حسین نے کہا کہ اگر ادارے محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں یہ معاملات طے کریں تو پی اے سی میں آنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

یہ معاملات ڈی اے سی کی سطح پر حل کئے جانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی کے ایک اجلاس پر 25لاکھ تک خرچ آتا ہے۔ پی اے سی نے سیکرٹری کیڈ کو ہدایت کی کہ اپنے تمام ماتحت اداروں کو طلب کر کے ان کو سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ محکمانہ آڈٹ کمیٹیوں کے اجلاس منعقد کرائیں۔ آڈٹ حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 2004ء میں وزارت سماجی بہبود و خصوصی تعلیم کی طرف سے پیپرا رولز کے برعکس 58لاکھ سے زائد مالیت کا ٹھیکہ دیا گیا۔

ڈی جی خصوصی تعلیم نے کمیٹی کو بتایا کہ اس معاملے کی پی اے سی کی ہدایت پر مکمل تحقیقات ہوئیں۔ اس وقت کے ڈائریکٹر خصوصی تعلیم اس میں ملوث پائے گئے۔ بعدازاں وہ ڈیپوٹیشن پر کراچی چلے گئے، ان دنوں وہ کراچی میں چائنا کٹنگ کیس میں جیل میں ہیں۔ میاں عبدالمنان نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوسف ہانی کے وارنٹ گرفتاری جاری اور ان کے سہولت کار اس وقت کے پی اے او اور ڈی جی خصوصی تعلیم کے خلاف کارروائی کی جائے۔

متعلقہ عنوان :