اختلاف رائے کا ہونا نئی بات نہیں ہے، بنیاد پر گروہ بندی قابل مذمت فعل ہے،مفتی محمد رفیع عثمانی

فرقہ وارانہ جھگڑے حرام ہیں، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، پاکستان کے تحفظ کیلئے مدارس کا استحکام ضروری ہے،مفتی اعظم پاکستان کا جامعة الرشید کی تقریب تقسیم انعامات سے خطاب

پیر 18 اپریل 2016 20:32

اختلاف رائے کا ہونا نئی بات نہیں ہے، بنیاد پر گروہ بندی قابل مذمت فعل ..

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔18 اپریل۔2016ء) مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ اختلاف رائے کا ہونا نئی بات نہیں ہے، لیکن اس بنیاد پر گروہ بندی قابل مذمت فعل ہے۔ فرقہ وارانہ جھگڑے حرام ہیں، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ پاکستان کے تحفظ کے لئے مدارس کا استحکام ضروری ہے،جبکہ بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے صدر ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ اور اسٹریٹیجک تعلقات ہیں جو امت کی وحدت کے لیے ضروری ہے۔

مسلم دنیا کے مسائل کے حل میں پاکستان کاقائدانہ کردار ناقابل فراموش ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعة الرشید کے کیمپس 2کے وسیع و عریض ہال میں سالانہ تقریب تقسیم اسنادو انعامات سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب میں اکابر علماء ، تاجر و سماجی رہنماء مولانا پیر عزیزالرحمان ہزاروی ، مولانا صاحبزادہ فضل الرحیم ،مفتی عبدالرحیم ، مفتی محمد ، مفتی عدنان کاکا خیل ،ایس ایم منیر، زبیر موتی والا ، یونس بشیر، حنیف گوہر، معروف اینکر ڈاکٹر شاہد مسعود، لیفٹیننٹ جنرل(ر) جی ایم ملک، لیفٹیننٹ جنرل(ر) محمد افضل جنجوعہ، ایئر مارشل(ر) ریاض الدین شیخ،مولانا راحت علی ہاشمی، ڈاکٹر ضابطہ خان شنواری،ڈاکٹر حافظ اللہ بخش ملک، عبداللہ گل، ایس خالد تواب، مولانا امداد اللہ،ڈاکٹر خان بہادر مروت، ڈاکٹر فیاض رانجھا،مولانا اسعد تھانوی، زاہد سعید، پروفیسر ڈاکٹر ذیشان احمد، مفتی سعید حسن دہلوی، ڈاکٹر خالد عراقی، مولانا زبیر اشرف عثمانی، اقتداء علی، رشید احمد صدیقی اور مختلف شعبہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے دیگراہم افراد نے خطاب کیااور شرکت کی۔

جامعة الرشید کی سالانہ تقریب تقسیم اسنادو انعامات میں جامعہ کے مختلف شعبوں کے386طلبہ فارغ التحصیل طلباء کی دستار بندی کی گئی اور ان کو انعامات دئے گئے جن میں درس نظامی کے71،کلیة الشریعہ کے20،BS.MBA.BAاورB.com کے92تخصص فی الفقہ المعاملات المالیہ کے10،تخصص فی الافتاء کے10و دیگر اسپیشل کورسز کے183طلبہ شامل تھے۔ مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ اس وقت اتحاد امت کی ضروت ہے اس لئے علماء و فضلاء کرام اتحاد امت کے لیے کردار ادا کریں۔

دینی علم بڑی نعمت ہے اور مزید علم کے حصول کی جستجو اپنے اندر پیدا کریں۔ اپنے دلوں میں اللہ کی خشیت پیدا کریں۔ انہوں نے کہا کہ علماء کرام کا کام امت کو جوڑنا ہے۔ آج ہمارے ملک میں ہر طرف فرقہ واریت کا طوفان پھیلا ہوا ہے اور دشمن ان حالات کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اسلام فرقہ واریت کی اجازت نہیں دیتا، اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہے، لیکن اس کی بنیاد دلائل پر ہونی چاہئے۔

مفتی محمد رفیع عثمانی نے کہا کہ گزشتہ دنوں استحکام مدارس و پاکستان کے عنوان سے وفاق المدارس کا اجتماع لاہور میں منعقد ہونا تھا جس پارک میں اجتماع منعقد ہونا تھا وہاں ہولناک دلسوز اندوہناک دھماکا ہو گیا جس میں بہت ساری قیمتی جانیں چلی گئیں ، جس کی وہ سے وہ کانفرنس نہ ہو سکی لہذا مشاورت کے بعدجامعة الرشید کی اس تقریب کو بھی استحکام مدارس و استحکام پاکستان کانفرنس کا نام دیا جاتا ہے۔

بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے صدر ڈاکٹر احمد بن یوسف الدریویش نے کہا کہ مسئلہ فلسطین ہو یا عالم اسلام کا کوئی اور مسئلہ پاکستان نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ میں اس ملک میں رہتا ہوں اور دل سے پاکستانی ہوں۔پاکستان اسلامی ممالک میں اہم ملک ہے پاکستان کا مضبوط ہونا عالم اسلام کے لیے ضروری ہے۔ پاکستان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ یہاں کا تعلیمی نظام دینی اور دنیاوی دونوں طریقون سے آراستہ ہوں۔

جامعة الرشید نے دینی اور دنیاوی تعلیم کو ملاکر اپنے حصے کا کام کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا اللہ ایک، رسول ایک، قرآن ایک ہیں، تو ہمیں امت کے مسائل کے حل کے لیے بھی ایک ہونا ہوگا۔ اسلام ہمیں اعتدال کا درس دیتا ہے۔ طلبہ اخلاص کی بنیاد پر تعلیم حاصل کریں اور حکمت کے ساتھ تبلیغ کریں۔ اس ادارے نے قلیل عرصے میں صرف اس لیے ترقی کی اس کی بنیاد اخلاص پر ہے۔

انہوں نے فضلاء کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ ناصرف پاکستان بلکہ امت مسلمہ کے لیے خاص لوگ ہیں، ہمیں آپ پر فخر ہیں۔ اللہ تعالیٰ تقویٰ سے مزید اعمال و افعال کی برکت پورے عالم میں پھیلا دیتا ہے انہون نے کہا کہ جامعة الرشید کی تعلیمی خدمات کی بنیاد بھی تقویٰ پر ہے اللہ تعالیٰ جامعة الرشید کی کاوشوں کو کامیابی عطا فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ میانہ روی اختیار کریں، دینی کاموں میں میانہ روی بہترین نتائج فراہم کرتی ہے، غلو سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ طلبہ دینی کاموں میں غلو سے بچیں۔

المصطفیٰ ٹرسٹ کے چئیرمین لیفٹینٹ جنرل (ر)غلام محمد ملک نے کہا کہ جامعة الرشید ایک مثالی ادارہ ہے ۔جامعة الرشید نے مختصر عرصے میں جو ترقی کی ہے وہ ایک مثال ہے ۔آج جامعة الرشید کا شمار ملک کے چوٹی کے چند ایک تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے،جامعة الرشید کے پاس بہترین تعلیمی نظام موجود ہے۔ دینی اور دنیاوی تعلیم کا امتزاج قابل تعریف ہے۔ جامعة الرشید اپنے طلبہ کو جس انداز سے دینی و دنیاوی تعلیم دے کر ایک کارآمد شہری بنا رہا ہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی،انہون نے کہا کہ ملک بھر میں نوجوانوں کی تعلیم کے لیے جامعة الرشید جیسے دینی تعلیمی ادارے کی ضرورت ہے تاکہ تعلیم یافتہ نوجوان جو دینی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش مند ہیں اور جامعة الرشیدجیسے تعلیمی ادارے میں دینی تعلیم حاصل کر سکیں۔

جامعة الرشید اپنے طلبہ کو ایسی تعلیم بھی فراہم کرنے کا انتظام کرے کہ اگر کوئی دینی طالب علم افواج پاک جوائن کرنا چاہے تو وہ افواج پاکستان بھی جاسکے، انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم سے آراستہ نوجوان کا افواج پاکستان میں جانا بہترین اقدام ہوگا۔دیر یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خان بہادر مروت نے کہا کہ اللہ تعالی نے جامعة الرشید سے زندگی کے ہر شعبہ میں کام لیا۔

خصوصاََ اس ادارے نے اس ملک سے مسٹر اور ملا کی تفریق کا خاتمہ کردیا ہے۔ تحریک نوجوانان پاکستان کے چیئرمین عبداللہ گل نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غلامی ہے۔ ہم نے جسمانی آزادی تو حاصل کرلی ہے لیکن ذہنی طور پر آج بھی غلام ہے۔ ہمیں پاکستان کو ذہنی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے اپنے کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور قرار دینے والے غلط ہے۔

پاکستان ایک مضبوط ملک ہے۔ پاکستان کی سرحد پر روس پارہ پارہ ہوگیا اور آج امریکا کو شکست ہوچکی ہے۔ معروف اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود نے کہا کہ دینی و دنیاوی علوم کے امتزاج پر مشتمل نظام تعلیم وقت کی ضرورت ہے ۔جامعة الرشید اس حوالے سے ممتاز حیثیت کا حامل ہے ،کہ یہاں یہ امتزاج ہے۔ آج پاکستان کی سالمیت کے خلاف مختلف سازشیں ہورہی ہیں ۔

ان حالات کا ہمیں مقابلہ کرنا ہے ،اللہ نے ہمیں پاکستان کی صورت میں پیارا ملک دیا ہے۔دنیا میں بہت ساری اقوام ایسی ہیں ،جن کے پاس اپنا ملک نہیں ہے ،یا ان کے ممالک تباہ ہو چکے ہیں ۔فلسطین اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔آباد کے چئیرمین حنیف گوہر نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم پاکستانی اور مسلمان ہیں ۔یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھااور ہم پر اللہ کی خاص نعمت ہے ،کہ اس ملک میں آپ جیسے علماء کرام موجود ہیں ۔

کیونکہ اگر ہماری دینی رہنمائی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تو آج ہم بھی دور جہالت جیسی زندگی گزار رہے ہوتے۔ ہم جامعة الرشید جیسے ادارون سے منسلک ہو کر ان کے ساتھ تعاون کریں ۔سابق چیئر مین سندھ بورڈ آف انویسٹمنٹ زبیر موتی والا نے کہا ہے کہ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے اسلامی علوم سے آراستہ ڈاکٹر ، انجینئر معاشرے کی بہترین خدمت کرسکتا ہے، انہوں نے کہاکہ آج کے زمانے میں مسلمانوں کی ترقی کے لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی و دنیا وی تعلیم کو آپس میں ملایا جائے، علماء کرام کے پاس دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کا ہونا بھی ضروری ہے۔

جامعة الرشید کی تقریب تقسیم اسناد و انعامات کے اختتام پر خلیفہ مجاز شیخ الحدیث مولانا محمد ذکریا مولانا عزیز الرحمن ہزاروی نے رقت آمیز دعا پر ہوا۔

متعلقہ عنوان :