لوک ورثہ ادبی میلے میں مظفر علی سیدتی سخن اور ا ہل سخن کتاب کی تقریب رونمائی

ہفتہ 16 اپریل 2016 20:35

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔16 اپریل۔2016ء) لوک ورثہ میں ہونے والے تین روزہ ادبی میلے کے دوسرے دن مظفر علی سیدتی سخن اور ا ہل سخن کتاب کی تقریب رونمائی ہوئی مستنصر حسین تارڑ اور آصف فرخی نے نکلے تیری تلاش میں کے موضوع پر بات چیت کی اور اردو ادب کے فروغ اور روح کو سمجھنے کے لئے ایک سیشن کا انعقاد کیا جس کا نام تھا اردو ہے جس کانام گزشتہ روز ہونے والے میلے میں مختلف ادبی نشستوں کا انعقاد کیا گیا جہاں پر نامور شعراء اور مصنفین نے ظہار خیال کیا اور ادبی گفتگو کرکے شرکاء کو محفوظ کیا سخن اور اہل سخن کی تقریب رونمائی کے دوران کشور ناہید حمید شاہد اور آصف فرخی نے کتاب پر اظہار خیال کیا اور مظفر علی سیدتی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی انہوں نے بتایا کہ مظفر علی سیدتی اہمیت ان کے کام کی توجہ سے ہے اس وقت صرف اردو ادوب میں بلکہ تمام سوشل سماجی سیاست اور کلچر کو بھی متاثر ہورہاہے ادب کی موت زبان کی موت ہے مظفر سید نے اپنی کتاب میں غلام عباس اور بیوی پر لکھا ہے کہ ان کا کوئی عمل سرسری نہیں تھا وہ کام نہیں بہت محنت کرتے تھے او رگہرائی میں جاتے تھے اور ادب کے تنقیدی لکھاری بھی تھے ایک مغربی تنقید لکھاری لارسن پر بھی انہوں نے کہا ہے کہ آج کے کالم نویسوں کے لئے مظفر سید مشعل راہ ہیں وہ ایک کالم کے لئے ایک ایک ہفتہ محنت کرتے تھے نکلے تیری تلاش کے موضوع پر ہونے والی ادبی نشست میں مستنصر حسین تارڑ نے کہا کہ میرے سفر کے پڑھنے اور انہیں سمجھنے کے لئے تھوڑا سا میرے اندر بھی جھانکنا پڑے گا میں فل ٹائم لکھاری ہوں میں نے اپنی زندگی بھی لکھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں کیا ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس قسم کے ڈرامے آج کل بن رہے ہیں وہ نہیں لکھ سکتا جتنا بھی مجھے لکھنا چاہیے تھا اتنا ہی میں لکھ پایا ہمارے زمانے میں لکھنے کا فن اردو کا تھا اور مجھے اردو پنجابی سے زیادہ آتی تھی اور بکتی بھی تھی کچن کا خرچ پنجابی سے نہیں چل سکتا تھا اس لئے جتنا پنجاب میں لکھا میں پنجابی کی اس قدر خدمت کرسکتا تھا شاعر سیف محمود اور پاکستان کے ممتاز شاعر علی اکبر ناطق نے گفت و شنید کی انہوں نے بتایا کہا کہ سورا کے دور میں دہلی کو شعر کہنے میں عروج حاصل ہوچکا تھا جب میر تقی میر لکھنئو چلے گئے تو لکھنئو میں بھی شعر کا رتبہ بڑھا سیف محمود نے بتایا کہ آج لکھنو میں میر تقی میر کو کوئی نہیں جانتا اتر پردیش کی سرکار نے ان کی جگہ کی قبر پر ریلوے لائن بچھادی ہے اور وہاں سے گزرنے والی سڑک پر ایک چھوٹا سا بورڈ میر تقی میر روڈ کا لگا ہے جسے بہت توجہ سے پڑھنا ہے انہوں نے بتایا کہ اس کی ادب اور نامور شعراء اور مصنتفین کو پڑھنے بغیر ہر شخص شاعر یا مصنف ہونے کا دعویٰ کرے وہ غلط ہے کیونیکہ اس کے بغیر زبان میں روانگی لطافت اور نزاکت نہیں آسکتی میر تقی میر کے اشعار ایک ہزار سال بعد بھی تازہ اور جدید لیں گے علی اکبر ناطق نے بتایا کہ پاکستان میں شاعری اچھی اور بلند ہے ہر دور میں اچھا لکھنے وایل دو چار ہی ہوتے ہیں