خیبرپختونخوا وزیر خزانہ مظفر سید ایڈووکیٹ پر سنگین الزامات پر مبنی اشتہارات اخبارات میں شائع

ہفتہ 16 اپریل 2016 16:01

خیبرپختونخوا وزیر خزانہ مظفر سید ایڈووکیٹ پر سنگین الزامات پر مبنی ..

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔16 اپریل۔2016ء) جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید ایڈووکیٹ پر سنگین الزامات پر مبنی اشتہارات اخبارات میں شائع کردیئے گئے جس پر وزیر خزانہ پر خیبر بینک کے خرچے پر جلسے جلوس کرانے‘ رشتے داروں اور منظور نظر افراد کو بینک میں بھرتی کرانے اور بینکاری میں مداخلت کا الزام لگایا گیا‘ اشتہار میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ‘ وزیراعلیٰ ‘ چیف سیکرٹری اور کسی دوسرے وزیر کے ملوث ہونے کی تردید کی گئی۔

ہفتہ کو صوبہ کے اخبارات میں شائع کرائے گئے اشتہارات میں خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ مظفر سید کے بارے میں کہا گیا کہ وہ کارپوریٹ گورننس رولز سے باخبر ہیں اور اپنے مختلف مطالبات منوانے پر بینک کی طرف سے انکار پر پریشانی کا شکار ہیں۔

(جاری ہے)

اشتہار میں کہا گیا ہے کہ بینک آف خیبر کی انتظامیہ کو بدنام کرنے اور دباؤ میں لانے کے لئے حال ہی میں میڈیا میں خیبرپختونخوا کے وزیر خزانہ کی طرف سے بینک کے خلاف جھوٹے اور گمراہ کن الزامات لگائے گئے جس میں وزیر خزانہ نے بینک کے بعض عناصر سے مل کر بینک کی انتظامیہ کو بدنام کرنے اور انہیں دباؤ میں لانے کے لئے یہ مہم شروع کی۔

بینک کی طرف سے وزیر خزانہ کے سیاسی طور پر نامزد افراد اور رشتہ داروں کی ترقی اور بینک کے ملازمین کے تبادلے اور تقرری جیسے اندرونی معاملات میں مداخلت پر بینک کے انکار سے وہ پریشان ہوگئے۔ وزیر خزانہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے وزیر ہیں مگر وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک مالی ادارہ کیسے کام کرتا ہے۔ گورننس رولز کے مطابق بینک کو بورڈ آف ڈائریکٹر چلاتا ہے حکومت کے پاس ملکیتی حصص کے 70فیصد کی اکثریت ہوتی ہے لہذا چیئرمین ‘ منیجنگ ڈائریکٹر اور تین ڈائریکٹرز کا تعین اس کا حق ہے۔

ایڈیشنل چیف سیکرٹری‘ چیئرمین اور ڈائریکٹر میں سے ایک سیکرٹری فنانس اور تین ڈائریکٹرز نجی شعبہ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ حقائق کی روشنی میں صوبائی وزیر خزانہ کی نگرانی میں بینک نہیں ہے اور قوانین کی رو سے حکومت بینک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ بینک نے میرٹ کے خلاف وزیر خزانہ کے سیاسی طور پر نامزد افراد کو بھرتی اور بینک کی برانچز کھولنے سے انکار کیا جس پر انہوں نے ادارے کو بدنام کرنا شروع کردیا اور ان کی حالیہ سرگرمیاں اس سازش کا حصہ ہیں۔

بینک نے ان الزامات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ‘ وزیراعلیٰ ‘ چیف سیکرٹری یا کسی اور وزیر کے ملوث ہونے کی تردید کی اور وزیر خزانہ پر بینک کے خرچوں پر جلسوں اور تقریبات کا انعقاد، بینک کے وسائل کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا ‘ بورڈ اور دیگر کارپوریٹ امور میں مداخلت کرنا ‘ سیاسی وابستگی کی بدولت ترقیاں‘ بینک کے بعض افراد کو ساتھ ملا کر من پسند افراد کی بینک میں بھرتی کے الزامات لگائے۔

خلیل الرحمن پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے بینک میں درجہ چہارم کے ملازمین کی تقرری میں خوب ہاتھ رنگے جیسے الزامات بھی لگائے گئے جبکہ بینک آف خیبر نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دیا ۔

متعلقہ عنوان :