نیب زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بلا امتیاز احتساب کے ذریعے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے، چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری

جمعہ 15 اپریل 2016 21:21

اسلام آباد ۔ 15 اپریل (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔15 اپریل۔2016ء) قومی احتساب بیورو کے چیئرمین قمر زمان چوہدری نے کہا ہے کہ نیب زیرو ٹالرینس کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بلا امتیاز احتساب کے ذریعے ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہے۔ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 274 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ یہ بات انہوں نے نیب ہیڈ کوارٹرز میں نیب افسران سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہا کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اپنی نئی حکومت کی ترجیحات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کو اس وقت سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ رشوت اور بدعنوانی ہے اور اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی ایسی برائی ہے جس سے ناانصافی اور بد اعتمادی کو فروغ ملتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کو مربوط طریقے سے ختم کرنے کے لئے 1999ء میں نیب کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نیب نے اب تک کامیابی سے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ نیب افسران بلا خوف و خطر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ نیب آزادانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے۔ نیب میں شکایات سے انکوائری اور انکوائری سے تفتیش تک کے عمل کو مکمل کرنے کے لئے 10 ماہ کا عرصہ مقرر کیا گیا ہے۔

نیب کے اپنے افسران کے خلاف بدعنوانی کی شکایات کو ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا جاتا ہے۔ نیب کے افسران کو سخت ضابطہ اخلاق پر عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرنس کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ 2014ء نیب کی بحالی کا سال تھا، ادارہ جاتی خامیوں کو دور کیا گیا ہے اور نیب کے تمام شعبوں کو بہتر بنایا گیا ہے۔ اب نیب کا کوئی افسر ذاتی طور پر سرکاری امور کی انجام دہی میں اثر انداز نہیں ہو سکتا۔

نیب میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے تحقیقات کا نظام وضع کیا گیا ہے جس میں دو تفتیشی افسران اور وکیل استغاثہ شامل ہوتے ہیں جس کا مقصد تحقیقات میں شفافیت لانا ہے۔ ادارے میں معیار کو یقینی بنانے کے لئے کام کا معیاری طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔ نیب سے رابطہ رکھنے والے تمام افراد کی معلومات کے لئے یہ سٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر نیب کی ویب سائیٹ پر بھی موجود تھے۔

انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوان عناصر سے لوٹے گئے 274 ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر انکوائری کی سطح پر ملزمان رضاکارانہ واپسی کیلئے تیار ہوتا ہے اور اپنے ذمہ مکمل واجب الادا رقم بمعہ سود کی بنیاد پر رضاکارانہ واپسی کی درخواست قومی احتساب بیورو کودیتا ہے، تو قومی احتساب بیورو ملزم کی قانون کے مطابق مکمل واجب الادارقم کا جائزہ لیتا ہے اور ملزم کی رضاکارانہ واپسی کی درخواست ریجنل اور سینٹرل ایگزیکٹو بورڈ میں پیش کی جاتی ہے اور چیئرمین نیب کی منظوری سے مکمل جانچ پڑتال اور قانونی رائے کے بعد رضاکارانہ واپسی کی درخواست منظور یا مسترد کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پلی بارگین کے قانون کے تحت بدعنوان عناصر سے لوٹی ہوئی رقم برآمد کرکے قومی خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے۔ ملزم نہ صرف اپنے ذمہ واجب الادا رقم بمعہ سود ادا کرتا ہے بلکہ پلی بارگین کے تحت ملزم اپنے جرم کا اعتراف کرتا ہے۔ ملزم دس سال تک سیاست میں حصہ لینے اور کسی بھی قومی شیڈول بینک سے قرضہ لینے کے لئے بھی نا اہل قرار پاتا ہے اور اگر ملزم سرکاری ملازم ہو تو اس کی پلی بارگین کی درخواست منظور ہونے کے فوری بعد اس کو نوکری سے برخاست کردیا جاتا ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ملزمان کو ان کے ذمہ واجب الادا رقم میں کمی کر کے ادائیگی کی سہولت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ معاشی ترقی سرمایہ کاری اور سماجی استحکام کے لئے موثر احتساب کا نظام ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بدعنوانی کے خلاف مہم قانون پر عمل درآمد پر مبنی ہے تاہم صرف قانون پر عمل درآمد سے اس پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔

بدعنوانی پر قابو پانے کے لئے کثیر الجہتی اور وسیع سوچ پر مبنی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جو کہ بدعنوانی کے خلاف آگاہی اور تدارک پر مبنی ہونی چاہئے۔ لوگوں کو بدعنوانی کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے آگاہی اور تدارک کی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں، اس لئے نیب نوجوانوں پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔

ملک بھر میں نوجوانوں کو بدعنوانی کے برے اثرات سے آگاہ کرنے کے لئے 10 ہزار کردار سازی کی انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں اکتوبر 2014ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کئے گئے ہیں۔ پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے ساتھ تعاون سے انسداد بدعنوانی کی قومی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے۔ یہ حوصلہ افزاء بات ہے کہ پاکستان کے ترقیاتی ایجنڈے میں نظم و نسق کے تناظر میں انسداد بدعنوانی کو پہلی بار شامل کیا گیا ہے۔

پلاننگ کمیشن آف پاکستان نے پہلی بار اپنے 11 سالہ منصوبے میں بدعنوانی کے معاملے کو بھی شامل کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کا مقابلہ کرنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کے مثبت نتائج مرتب ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ نیب بدعنوانی سے پاک پاکستان بنانے کے لئے پرعزم ہے اور ہم پاکستانی ہونے کی حیثیت سے اپنی زندگیوں سے بدعنوانی کو نکال پھینکیں۔

انہوں نے معاشرے کے ہر فرد پر زور دیا کہ وہ ذاتی پیشہ ورانہ اور سرکاری فرائض کے دوران اثر و رسوخ اور تعصب سے گریز کرے۔ انہوں نے نیب افسران کو ہدایت کی کہ وہ ایمانداری اور شفافیت پر عمل کرتے ہوئے قانون کے تحت مقدمات کو نمٹائیں۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کے تمام طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملک سے بدعنوانی کے خاتمے کے لئے اپنا کردار ادا کریں اور انہوں نے زور دیا کہ وہ وہ نیب کی مہم ”بدعنوانی سے انکار“ کا حصہ بنیں تاکہ بدعنوانی کے خلاف زیادہ سے زیادہ آگاہی پیدا کر کے بدعنوانی کا خاتمہ یقینی بنایا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :