راجن پور میں 8 اضلاع کی پولیس کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوﺅں پر قابو نہیں پاسکی ، پولیس نے آپریشن روک کر فوج سے فضائی مدد طلب کر لی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 14 اپریل 2016 16:48

راجن پور میں 8 اضلاع کی پولیس کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوﺅں پر قابو ..

راجن پور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔14اپریل۔2016ء) راجن پور میں 8 اضلاع کی پولیس کچے کے علاقے میں موجود ڈاکوﺅں پر قابو نہیں پاسکی ، پولیس نے آپریشن روک کر فوج سے فضائی مدد طلب کر لی ہے۔ایس ایچ او سمیت 7 پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد کارروائیاں روک دی گئیں ، چھوٹو گینگ نے مزید 5 اہلکاروں کی لاشیں پولیس کے حوالے کر دی ہیں جن میں ایس ایچ او حنیف غوری ، شکیل ، اجمل ، طارق اور امان اللہ شامل ہیں جبکہ یرغمالی پولیس اہلکاروں کی رہائی کے لئے چھوٹو گینگ سے مذاکرات جاری ہیں۔

ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ چھوٹو گینگ کیخلاف آپریشن میں ناکامی اور اہلکاروں کی شہادت ناقص حکمت عملی کا نتیجہ ہے ، کچا جمال میں داخل ہونے والے اہلکاروں کو فی کس صرف150 گولیاں دیں گئیں جبکہ آپریشن کیلئے پولیس کی مطلوبہ تعداد بھی تعینات نہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

(جاری ہے)

کچا جمال اور کچا مورو میں پولیس نے کارروائی کی جبکہ کچا کراچی اور کچا حیدر آباد کونظر انداز کیا گیا۔

ادھر قریبی آبادی میں رہائش پذیر چھوٹو کے رشتہ دار بھی پولیس کے ساتھ تعاون سے گریزاں ہیں۔ 24 اہلکاروں کو چھوٹو گینگ نے یرغمال بنا رکھا ہے جبکہ چار زخمی اہلکاروں کو پولیس کے سپرد کیا گیا ہے۔راجن پور، رحیم یار خان اور کشمور کے آس پاس کے کچے کے علاقے میں سکیورٹی فورسز کا مشترکہ آپریشن گذشتہ کئی روز سے جاری ہے۔اس آپر یشن کے دوران پولیس کی جانب سے چھوٹو گینگ کے ڈپٹی کمانڈر سمیت پہلوان عرف پلو سمیت اور ایک رنگ لیڈر علی گلباز گیر کے ہلاک ہونے اور ان کے کئی ساتھیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات منظر عام پر آئی ہیں، تاہم ابھی تک سکیورٹی فورسز کو کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔

پنجاب پولیس کی ترجمان کا کہنا ہے کہ یرغمال کیے گئے اہلکاروں میں کتنے پولیس سے تعلق رکھتے ہیں اور کتنے رینجرز سے اس کا تعین کرنا فی الوقت مشکل ہے۔ تاہم مقامی قبائل کے ذریعے چھوٹو گینگ سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں تاکہ یرغمال اہلکاروں کو بازیاب کروایا جا سکے۔دریائے سندھ میں 2010 کے سیلاب کے بعد بننے والے ایک جزیرے پر، جسے چھوٹو گینگ کی نسبت سے ’چھوٹو جزیرہ‘ کہا جاتا ہے، پناہ لیے ہوئے ڈاکووں کے خلاف پنجاب پولیس پہلے بھی کئی بار ناکام آپریشن کر چکی ہے۔

جزیرے پر اور اس کے اردگرد کچے کے علاقے میں جنگل ہونے کی وجہ سے بھی اہلکاروں کو آپریشن میں دقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ڈاکووں کی جانب سے شدید مزاحمت اور فائرنگ کے باعث پولیس کو پیش قدمی کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔تاہم اس مرتبہ پولیس کے ساتھ رینجرز اور فوج کی معاونت بھی شامل ہے اور پولیس نے فوج سے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد بھی مانگی ہے۔

توقع ظاہر کی جا رہی ہے کہ چھوٹو گینگ کے خلاف فضائی کاروائی جلد شروع کر دی جائے گی۔ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق گینگ کے سرغنہ غلام رسول عرف چھوٹو نے پولیس کو تنبیہ کی ہے وہ آپریشن ختم کر کے علاقے سے واپس چلے جائیں اور حراست میں لیے گئے ان کے ساتھیوں کو چھوڑ دیں ورنہ یرغمال بنائے گئے اہلکاروں کی زندگیوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔

ایک اطلاع کے مطابق غلام رسول عرف چھوٹو نے فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ پولیس کے خلاف آخری سانس تک لڑنے کا عزم دہرایا ہے۔اس رپورٹ کے مطابق غلام رسول عرف چھوٹو کا کہنا ہے کہ ہم دہشت گرد نہیں نہ ہی ملک دشمن ہیں۔ ہم زمیندار ہیں اور اپنے گھر بار چھوڑ کر جانا نہیں چاہتے۔ ہمیں جینے دیا جائے۔پولیس کی ترجمان کا کہنا ہے کہ آپریشن کی حکمت عملی میں تبدیلی کے لیے سکیورٹی اداروں کا اجلاس جاری ہے جس میں اہلکاروں کی ہلاکتوں اور یرغمال بنائے جانے کے بعد تبدیلی کی جائے گی۔آپریشن کے باعث علاقے میں موبائل فون سروس بھی عارضی طور پر بند کر دی گئی ہے۔

متعلقہ عنوان :