پنجاب اسمبلی اجلاس، اپو زیشن کا احتجاج ، گو نواز گو کے نعرے

منگل 12 اپریل 2016 18:20

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔12 اپریل۔2016ء) صوبائی اسمبلی پنجاب کے اجلاس میں صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے حکومتی بنچوں میں غیر سرکاری کارروائی کے رکن شیخ علاؤ الدین کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ وہ شیخ علاؤ الدین کی بات کو درست مانتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بینک اور دوسرے مالیاتی ادارے ملک کی اکنا می میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔

ان اداروں سے لاکھوں لوگوں کو روزگار میسر آتا ہے۔ جہاں پر پولیس ہر حفاظت کی ذمہ داری آتی ہے وہاں پر ان اداروں کی انتظامیہ کو سکیورٹی کے معاملات کو یقینی بنانے کے لئے اقدامات بھی کرنے ضروری ہیں۔ بینکوں یا ایکسچینج کمپنیوں کے گارڈوں سے ڈاکو اسلحہ چھین لینے اور رقم لوٹ کر فرار وہجاتے ہیں اس کی سی سی ٹی وی کیمروں کی ناقص تنصیب ہی ہے کیونکہ جب ان کیمروں کی فوٹیج دیکھی جائے تو واردات میں ملوث لوگ پہنچانے نہیں جاتے۔

(جاری ہے)

رانا ثنااللہ نے کہا کہ فیصل آباد کے بینک میں ڈکیتی ہوئی اور ڈاکوؤں نے گارڈ سے اسلحہ لے لیا اور لوٹ مار کرکے چلے گئے جب چوکیدار سے پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ وہ پہلے رکشا چلایا کرتا تھا اس کو سکیورٹی ایجنسی میں ملازمت مل گئی اور بغیر ٹریننگ کے اس نے ڈیوٹی شروع کردی۔ اس میں بینک والوں کی بھی ذمہ داری آتی ہے کہ انہوں نے غیر معیاری سی سی ٹی وی کیمرے لگائے اور دوسری جانب پولیس والو ں کو بھی چیکنگ کے نظام کوبہتر بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ شیخ علاؤ الدین نے ایوان کو بتایا کہ ایکسچینج کمپنیوں میں گارڈ ہونے کے باوجود پولیس والے بلاوجہ بھرتیاں کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ فنانشل کمپنیوں کے معاملات سکیورٹی پلان سٹیٹ بینک کے ماتحت کام کرتے ہیں معاملات سلجھائے جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ ایک عام کیش70لاکھ روپے میں آتی ہے اس پر سپیکر نے پارلیمانی سیکرٹری مہر اعجاز اچلانا کو جواب دینے کو کہا تو پارلیمانی سیکرٹری نے کہا کہ ہرڈویژن کے ڈی سی او اپنے علاقے میں سکیورٹی پلان تشکیل دیتا ہے۔

شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ ملکی اکتامی میں سب سے زیادہ حصہ ٹیکس کا فنانشل ادارے دیتے ہیں اور اگر ایک گھنٹے کے لئے ملکی مالیاتی ادارے بند ہوجائیں تو نقصان کا اندازہ آپ خود لگالیں۔ اس دوروان اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے پانامہ لیکس کے بارے میں جمع کروائی گئی تحریک التوائے کا پر کہا کہ اس سے ملک کی دنیا بھر میں رسوائی ہورہی ہے اور اس پر بحث کیوں نہیں اس کے بعد اپوزیشن بنچوں کے اراکین نے گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کردئیے دوسری جانب سے حکومتی بنچوں کی طرف سے یہ جھوٹ ہے۔

جھوٹ ہے کے نعرے لگائے جانے لگے جس سے ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرنے لگا۔ اس اثنا میں سپیکر ان کو ایسا کرنے سے منع کرتے رہے لیکن نعرے تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہے تھے اور اپوزیشن کے تمام ممبران سپیکر کے ڈاٹس کے سامنے آکر بیٹھ گئے اور نعرے بازی ہوتی رہی15سے20منٹ تک احتجاج کرنے کے بعد اپوزیشن اراکین اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔

اس اثنا میں سپیکر اسمبلی رانا محمد اقبال خان نے ہال میں بیٹھے ہوئے اراکین پارلیمانی سیکرٹریوں کو ہدایت کی کہ وہ اسمبلی اجلاس کے کارروائی میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اس پر صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ پہلے متعلقہ محکمے کا پارلیمانی سٹرکر سوالوں کے جواب دیا کرتے تھے جب وزیر جواب دے گا تو است کا جواب نوٹس ہوگا۔ سپیکر نے کہا کہ آنے والے دن سے پہلے وزیر یا پارلیمانی سیکرٹری کو اطلاع دی جائے کہ وہ مقررہ وقت پر آکر اسمبلی کارروائی میں اپنا کردار اداکریں اس کے بعد اجلاس کا وقت ختم ہوگیا اور اجلاس آج دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔