مالا کنڈ ڈویژن کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ،خیبر پختونخوا حکومت

جمعرات 7 اپریل 2016 12:21

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔07 اپریل۔2016ء) خیبر پختونخوا حکومت نے کہا ہے کہ شدت پسندی سے متاثرہ صوبے کے زیر انتظام قبائلی علاقہ مالا کنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ واپس لینے کیلیے سمری صدر مملکت کو بھیجی جا رہی ہے تاکہ وہاں کے عوام کو ٹیکسوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان مشتاق غنی نے تصدیق کی ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے سفارشات پر مبنی ایک سمری تیار کی ہے، انھوں نے کہا کہ سمری میں موقف اختیار کیاگیا ہے کہ مالا کنڈ ڈویژن گذشتہ کئی برسوں سے دہشت گردی اور شدت پسندی سے بری طرح متاثر رہا ہے اور عوام نے بڑے نقصانات برداشت کیے لہٰذا اس علاقے میں نافذ کردہ کسٹم ایکٹ کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔

انھوں نے کہا کہ گذشتہ سال ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ مالا کنڈ ڈویژن میں شدت پسندی کے واقعات میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بڑی تعداد میں استعمال ہو رہا ہے اس وجہ سے دہشت گردی روکنے کی بنا پر اس علاقے کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

مشتاق غنی نے مزید بتایا کہ مالاکنڈ کے تمام اضلاع کے حالات میں اب کافی حد تک بہتری آئی ہے لہٰذا اس بنیاد پر وہاں ٹیکس کے نفاذ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔

ان سے جب سوال کیا گیا کہ صدر مملکت صوبائی حکومت کی سفارشات کو تسلیم کریں گے یا نہیں تو اس پر مشتاق غنی نے کہا کہ جب صوبے کی طرف سے ایکٹ کی نفاذ کی واپسی کی سفارشی کی جا رہی ہے تو صدر مملکت کو ضرور قبول کرنا چاہیے۔ادھر دوسری طرف مالا کنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔گذشتہ چند دنوں کے دوران صوبے کے تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس ایکٹ کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے اور جلسے جلوس منعقد کیے گئے۔

تاہم اس سے پہلے کہ یہ تحریک مزید زور پکڑتی، صوبائی حکومت نے فیصلہ واپس لینے کے لیے صدر مملکت سے سفارش کر دی۔خیال رہے کہ مالاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ ایک سال قبل کیا گیا تھا تاہم اس ضمن میں باقاعدہ اعلامیہ چند دن پہلے گورنر ہاوٴس پشاور سے جاری کیا گیا تھا۔اس ایکٹ کے اعلان کے ساتھ ہی اس کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا جس کے بعد صوبے میں حکمران جماعت تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک دوسرے پر الزامات بھی لگائے گئے۔

حکمران پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ یہ ٹیکس وفاقی حکومت کی طرف سے لگایا گیا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ سمری گورنر خیبر پختونخوا کی طرف سے ضرور بھیجی گئی ہے لیکن اس کی سفارش صوبائی حکومت کی طرف سے دی گئی تھی۔

متعلقہ عنوان :