پنجاب اسمبلی اجلاس ، وقفہ سوالات، سرکاری کارروائی، تحاریک التوائے کار اوراستحقاق نمٹائی گئیں

سپیکر رانا محمد اقبال خان کا پری بجٹ پر عام بحث کا اعلان

بدھ 6 اپریل 2016 21:06

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔06 اپریل۔2016ء) صوبائی اسمبلی پنجاب کے اجلاس میں وقفہ سوالات، سرکاری کارروائی، تحاریک التوائے کار اوراستحقاق نمٹائی گئیں جبکہ سپیکر رانا محمد اقبال خان نے پری بجٹ پر عام بحث کا اعلان کیا۔ رکن اسمبلی اصغر علی منڈا نے پری بجٹ بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ اس وقت پنجاب میں زراعت کا جو حال ہے اور جو زمینداروں پر گزر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔

یوں تو زراعت کو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تصو رکیا جاتا ہے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کاشتکاروں کے لئے جو پیکیج دیا ہے وہ صرف اشک شو کی مترادف ہے۔ اگر ہم نے پنجاب کے ساتھ مساوی سلوک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ دھان، کھاد، گندم کی اجناس پر دی جانے والی سبسڈی کو ازسر نو درست کرنا ہوگا اس لیے کسانوں کو تیل، ڈیزل، بجلی، کھاد اور بیج کے نرخوں پر سبسڈی کو بہتر بنانا ہوگا اور ہمیں صرف سبسڈی پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس ضمن میں ایگر ومارکیٹنگ اتھارٹی قائم کی جائے جس میں کسانوں کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے تاکہ مارکیٹ میں یکساں قیمت کا تعین کیاجائے۔

(جاری ہے)

امجد علی جاوید نے کہا کہ پنجاب حکومت کا نوٹس تعلیم، صحت اور مشقت پر ہونا ضروری ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ حکومت صحت کے سیکٹر میں ادویات کی تیاری کا نظام مقدار کی بجائے معیارکی بنیاد پر یقینی بنایاجائے حکومت بینکوں کو ہدایات جاری کرے کہ وہ چھوٹے زمینداروں کو زرعی قرضہ فراہم کرے۔ پیپلزپارٹی کے میاں اسلم امتیاز نے کہا کہ پری بجٹ سے مراد تجاویز ایوان میں جی جائیں۔

گزشتہ بجٹ میں جو فنڈز مختلف محکموں کے لئے مختص کیے گئے ہیں انکو کسی انداز میں خرچ کیا گیا۔ یہ کام پری بجٹ سے قبل وزیر خزانہ کا ایوان میں اپنی رپورٹ میں پیش کرنا تھا۔ میاں اسلم اقبال نے کہا کہ صحت کے معامیل میں کو بھی شہر کے معروف ہسپتال گنگارام، میوہسپتال، سروسز ہسپتال کے علاوہ دیگر ہسپتالوں میں وزیرخزانہ جاکر دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ کس طرح سے غریب لوگ ان ہسپتالوں کے باہر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے ہیں۔

ان لوگوں کو بروقت طبی امداد نہیں ملتی۔جنرل ہسپتال میں ونٹی لیٹر ہوجود نہیں جب ایکسیڈنٹ ہو جاتا ہے تو شعبہ حادثات میں طبی سہولتیں کے حصول میں دشواری کا سامنا ہوتا۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ27کلو میٹر پر بجائے 17بلین لگانے کے 200ارب روپے خرچ کئے جارہے ہیں اور یہی روپیہ اگر لاہور کے تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں میں پیسہ لگایا جاتا۔ اس طرح ہسپتالوں میں ڈیالیسنز پر خرچ کئے جائے اسے فنڈز کو پڑھایا جائے۔

اس کے علاوہ ہر ہسپتال میں کارڈیالوجی وارڈ قائم کئے جائیں ۔ جہاں پر ونٹی لیٹر،ایم آر آئی، سٹی سکین کی سہولتیں بھی فراہم کی جائیں۔ سعید گل نے کہا کہ ایوان نے جو بجٹ پر ہماری تجاویز طلب کی ہیں بہت عمدہ اقدام ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ اپوزیشن کو ہر کام میں شامل کیا جائے۔ سردار شہاب الدین نے کہا کہ ملتان میں میٹرو کا ایک تہائی حصہ بھی نہیں بنا اور ایک برس سے اس پر کام بند ہے۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں ان کے علاقے کی روڈ خستہ حال ہو چکی ہیں۔ وزیر خزانہ سے التماس ہے کہ اس طرف توجہ دیں۔ حنا پرویز بٹ نے کہا کہ اگر حکومت اور اپوزیشن باہمی مشاورت سے بجٹ کی تفصیلات طے کریں تو بہت بہتر ہوگا۔ اس طرح دہشتگردی کے خلاف کراچی میں جو آپریشن ہو رہا ہے اس سے معیشت میں بہت نمایاں بہتری آئی ہے۔ محمد صدیق خان نے کہا کہ پری بجٹ بحث بجٹ سے قبل بہت اچھی بات ہے۔

47ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ چینی کمپنیاں کررہی ہیں۔ وہاں سے صرف 10فیصد انویسٹمنٹ آرہی ہیں۔ جبکہ پاکستان اسوقت 78ارب روپے کا مقروض ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں آنے سے پہلے وزیر خزانہ نے کہا ان کو حکومت مزید قرضے نہیں لے گی۔ اس کے باوجود آج پاکستان 78ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان اقتصادی طور پر ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

ایسے حالات میں قابو پانے کیلئے پروفیشنلز کا سہارا لینا بہت ضروری ہو چکا ہے۔ سردار محمد جمال خان کا کہنا تھا کہ غیر ممنوعہ بور لائسنسوں پر دو برس کی پابندی عائد کی گئی تھی۔ نا درائزیشن اور کمپیوٹرائزیشن کی وجہ سے اسلحہ لائسنس کی کتابیں ریڈ ایبل ہونی چائیں۔ انہوں نے کہا کہ صاف پانی کے منصوبے پر جو فنڈز مختص کئے گئے تھے ابھی تک جاری نہیں ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ کوٹ منروکو سیاحتی مرکز بنانے کیلئے اقدامات کو تیز کیا۔ اسی دوران سپیکر نے کہا کہ ماڑی پور ڈویلپمنٹ میں اس کا حصہ ہے لہذا وزیر خزانہ کو اسطرح بھی توجہ بھی توجہ مرکرز کر نی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ شہروں میں ویسٹ مینجمنٹ کمپنیاں بنائی گئی ہیں جبکہ دیہات فلتھ ڈپو کا منظر پیش کررہے ہیں۔ پیسے والے لوگ الیکشن میں اربوں روپے لگا کر سیٹیں خریدتے ہیں۔

لاہور اور لودھراں میں جو کچھ ہوا آپ کے سامنے ہے۔ لہذا آئندہ الیکشنوں کیلئے قانون سازی کی جائے۔ شیخ علاؤ الدین نے کہا کہ بجٹ میں ترجیحات کو سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔ لاہور کے گردونواح میں فیشن فیکٹریاں کام کررہی تھیں۔ وہ بند پڑی ہیں۔ اس کی وجہ کاسٹ آف مارک اپ میں زیادتی ہے۔ ان بنکوں کو ہدایات جاری کی جائیں گے ان بنکوں کو بحال کرنے کیلئے قرضوں کا اجراء کریں۔

امپورٹ پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت اور چین کے ساتھ تجارتی امپورٹ پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینا ہوگا۔ اگر ہم نے یہ پالیسی تشکیل نہ دی تو آنے والاوقت ہمیں معاف نہیں کرے گا۔ حکومت انڈسٹری کو بحال کرنے کے اقدامات کرے انہوں نے کہا کہ ریسٹورنٹوں رات دس بجے تک کھلے رکھے جائیں۔ اس کے بعد کھانا سرو کرنے پر 20سے30فیصد لگژی ٹیکس عائد کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اندرون شہر لوگوں کے گھروں کو مسمار نہ کیاجائے اور غریب لوگوں سے چھت نہ چھینی جائے۔ اس ضمن میں پرانے گھروں کی مرمت کرکے ان کو بحال کیا جائے ان کے علاوہ ڈاکٹر نوشین ،آصف محمود، شیلا روت نے بھی ایوان میں اپنی تجاویز پیش کیں۔ سپیکر نے وقت ختم ہونے پر اجلاس آج صبح دس بجے تک ملتوی کر دیا