سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کااجلاس، اتصالات کے ساتھ معاہدے پر شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار

اتصالات کے ساتھ معاہدہ سراسر غلط تھا ، حکومت نے قومی مفاد کو مد نظر نہیں رکھا،چیئرمین کمیٹی نے معاہدوں کی تمام تفصیلات طلب کرلیں

بدھ 6 اپریل 2016 19:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔06 اپریل۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چیئرمین سینیٹر شاہی سید کی سربراہی میں کمیٹی کے منعقدہ اجلاس میں اتصالات کے ساتھ معاہدے پر شدید خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ اتصالات کے ساتھ معاہدہ سراسر غلط تھا معاہدہ کرتے وقت حکومت نے قومی مفاد کو مد نظر نہیں رکھا شرائط اتصالات کی تسلیم کی گئیں قیمتی جائیدادیں اتصالات کے حوالے کی گئیں اور معاہدہ بھی متعین وقت میں مکمل نہیں کیا جا سکا کسی بھی حکومت نے قومی مفاد کو اتصالات معاہدے میں مقدم نہیں رکھا حالانکہ قومی مفاد پہلی ترجیح ہونی چاہے تھی معاہدے سے قبل اور دستخط کرتے وقت قانونی پہلوؤں کو مد نظر رکھنا ضروری تھا اتصالات کے ساتھ 2005 کے معاہدے اور بعد میں ترمیمی معاہدہ کی مکمل تفصیلات طلب کر لیں گئیں ۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ نجکاری کمیشن موجود نجکاری لسٹ میں شامل قومی اداروں پی آئی اے ، پاکستان اسٹیل ملز، کی نجکاری کے وقت اتصالات جیسا حال نہ کرے پی ٹی سی ایل اور کے ای سی کی طرح کا معاہدہ نہیں ہونا چاہیے ۔کمیٹی اجلاس میں ہدایت دی گئی پی ٹی سی ایل ، این ٹی آر سی اور ٹی آئی پی تمام زمینوں جائیدادوں جن میں سکول ، ہسپتال اور کالونی شامل ہیں کے بقایا جات تینوں ادارے ادا کریں اور عارضی ملازمین کو مستقل کیا جائے ۔

چیئرمین کمیٹی نے نجکاری کمیشن کی کارکردگی کو بہتر قرار دیا اور وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بارے میں رائے دی کہ وزارت مزید بہتری کے اقدامات اٹھاتے ہوئے سخت فیصلے کرے ۔ وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمن نے کہا کہ ٹی آئی پی کو ٹھیک کرنے کی جو ذمہ داری لی اسے حقیقت میں تبدیل کر دیا ہے ٹی آئی پی جیسے قومی ادارے کے ساتھ اس ادارے کے ملازمین نے جو کیا وہ ناقابل معافی ہے تین ہزار کنال کے سے زائد زمین کے کاغذات بڑی مشکل سے حاصل کیے کوئی کاغذات دینے پر تیار نہیں تھا ان کاغذات میں انکشاف ہوا کہ432 کنال میں سے 2005-6 کے معاہدے میں 110 کنال پی ٹی سی ایل ، 6 کنال این ٹی آر سی کو دے دی گئی ٹی آئی پی نے پرائیوٹ ہاؤسنگ کالونی بنا لی اور زمین کو کئی بار آگے ٹرانسفر کر دیا گیا ایک زمین جو ٹی آئی پی کی تھی ہی نہیں ایس آر او کے ذریعے تین حصوں میں تقسیم کر دی گئی ۔

ٹی آئی پی کے پاس ٹرانسفر کا حق نہیں تھا سارے اثاثے ٹرانسفر ہو گئے کالونی بورڈ کو تبدیل کر دیا گیا ۔ کالونی بورڈ نے بجلی ، گیس کے بل وہ بھی ادا کیے جو ان کے ذمے نہیں تھے ۔میری سخت ہدایت تھی کہ بجلی اور گیس کے غیر قانونی بل جمع کرانے کی ہر گز اجازت نہیں ، ٹی آئی پی نے پی ٹی سی ایل پر مقدمہ دائر کر دیا زمین ہماری تھی دس سا ل سے مقدمہ عدالت میں ہے ٹی آئی پی کے کوئی اختیار نہیں کہ ریاست کو چیلنج کرے نہیں جانتی کہ 2005 میں حکومت پاکستان نے یہ زمین تین اداروں میں کیسے تقسیم کی ۔

سکول اور ہسپتال تین اداروں کیلئے بنائے گئے تھے کالونی بورڈ مرضی سے بنایا گیا سینیٹر روبینہ خالد نے کہا تعلیم اور صحت ہر شہری بنیادی آئینی حق ہے سکول اور ہسپتال کے ملازمین کو مستقل کی جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سکول کی زمین پی ٹی سی ایل کی ہے اور حیران ہوں کہ پی ٹی سی ایل سکول کو چلانے پر تیار نہیں حالانکہ حکومت کا حصہ 74 فیصد ہے وزیر مملکت انوشہ رحمان نے کہا کہ 2005 میں جو بھی انڈر اسٹینڈنگ ہوئی تھی زمین دے دی جاتی تو عدالت سے حکم امتناعی نہ آتا ٹی آئی پی کے سربراہ ضیاء الحق نے آگاہ کیا کہ ٹی آئی پی کے این او سی کے بغیر اور بغیر بورڈ منظوری کے نجکاری کی گئی جس کے خلاف عدالت میں گئے اور بتایا کہ این ٹی آر سی اور پی ٹی سی ایل کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں این ٹی آر سی کے بریگیڈیئر افتخار نے آگاہ کیا کہ سکول چلانے کیلئے پوری کوشش کر رہے ہیں اور وزارت دفاع سے بھی مدد مانگی ہے 6 ملین کلیئر کر دیئے گئے ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ پی ٹی سی ایل بھی ایسے ہی کرے تو ادارے بچ جائیں گے ۔سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ ٹی آئی پی کی عمارتیں سٹیٹ آف آرٹ ہیں اپ گریڈ کر کے تجارتی بنیادوں پر چلایا جاسکتا ہے ۔ سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری میں ٹی آئی پی کو شامل کر لیا جائے آمدن میں بے پناہ اضافہ ہو سکتا ہے ۔

سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ پی ٹی سی ایل اور اتصالات کا معاملہ جلد سے جلد حل ہونا چاہیے ۔ سینیٹر عثمان سیف اﷲ خان نے کہاکہ سکول اور ہسپتال کے ملازمین صوبائی حکومت کے حوالے کر دیئے جائیں ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ٹی آئی پی کی 432 کنال زمین پر پاک چین اقتصادری راہدری میں بہترین صنعتیں لگ سکتی ہیں ۔وزیر مملکت انوشہ رحمن نے کہا کہ ٹی آئی پی کے انفراسٹرکچر اور بقایا جات کی مالیت 274 ملین ہے اور کہا کہ 70 سال کا گندہ صاف کرایا ہے پی ٹی سی ایل اب ٹی آئی پی کی عمارتوں کے حوالے سے کہتا ہے کہ دس سال سے قبضہ واگزار کیاجائے وزیر مملکت نجکاری زبیر عمر نے کہا کہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ 800 ملین ڈالر کی واپسی وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ہے عدم توجہ سے معاملات خراب ہونگے پچھلی حکومتو ں نے معاہدے پر مکمل عمل نہیں کیا ہم نے بھی اگر توجہ نہ دی تو قومی نقصان ہوگا ۔

سیکرٹری نجکاری احمد سکھیرا نے کہا کہ ستمبر2015 میں وزیر خزانہ نے اتصالات کے سی ای او کے ساتھ اجلاس میں بنیادی مسئلے ٹرانسفر اور پراپرٹی دونوں پارٹیوں کی تخمینہ لاگت پر رضا مندی ظاہر کی ہے اور نجکاری کمیشن نے آگاہ کر دیا ہے کہ 33 پراپرٹیز ٹرانسفر نہیں کی جاسکتی ٹیکنیکل سروسز ٹرانسفر کی ادائیگی کے حوالے سے پی ٹی سی ایل کے خلاف مختلف زیر سماعت مقدمات کو اکٹھا کر کے دفاع کرنے کا بھی کہا گیا ہے اور کہا کہ حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ مقدمات ختم کرائے جائیں لیکن ہمارا کہنا ہے کہ اتصالات سروس پی ٹی سی ایل کو دیتی ہے ادائیگی پی ٹی سی ایل کرتی ہے پچھلے سال کی ادائیگی کی اجازت اسٹیٹ بنک نے نہیں دی اتصالات اور نجکاری کمیشن کی خط و کتابت جاری ہے ۔

چیئر مین نجکاری کمیشن نے کہا کہ کمیٹی معاملہ کے حل کے لئے واضح ہدایت دے دباؤ ہر طرف سے آنا چاہیے اگلے اجلاس میں اتصالات اور گورنر اسٹیٹ بنک کو بھی بلوایا جائے جنوری 2008 تک جائیدادیں ٹرانسفر ہو جانی چاہیے تھیں جو نہیں کی جاسکیں ۔سینیٹر تاج آفریدی نے کہا کہ 800 ملین پھنسا ہوا ہے جس کا حل نکلنا چاہیے ۔چیئرمین نجکاری زبیر عمر نے کہا کہ 3300 جائیدادوں میں سے 90 فیصد جائیدادیں (ن)لیگ کے دور حکومت میں ٹرانسفر کی گئیں ہیں ۔

وزیر مملکت انوشہ رحمن نے آگاہ کیا کہ معاہدے کے مطابق پانچ سالہ مدت میں تمام معاملات حل ہونے تھے پی ٹی سی ایل معاملہ بورڈ میں لائی لیکن بورڈ میں اتصالات کی اکثریت تھی ٹیکنیکل سروسز معاہدہ کا معاملہ اور توسیع نیب نے چیلنج کیا ہوا ہے ۔ ٹیلی کمیونیکیشن پالیسی 2015 پر بحث اگلے اجلاس تک موخر کر دی ۔ کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز غوث محمد خان نیازی، کریم احمد خواجہ ، عثمان سیف اﷲ خان، گیان چند ، نجمہ حمید، نسیمہ احسان ، مفتی عبدالستار ، تاج محمد آفریدی کے علاوہ وزیر مملکت انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان، وزیر نجکاری کمیشن زبیر عمر، سیکرٹری وزارت عرفان بشیر خان، سیکرٹری نجکاری احمد سکھیرا ، ٹی آئی پی کے ضیاء الحق، این ٹی آر سی کے بریگیڈیئر افتخار اور اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :