شریف خاندان کے لیے عدالتی کمیشن ‘ سیف اللہ فیملی، چوہدری بردران، ہاشوانی گروپ ‘ ملک ریاض اور رحمان ملک سمیت دیگر 200سے زائد افراد کی آف شور کمپنیوں کی چھان بین کون کرے گا؟

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 6 اپریل 2016 11:10

شریف خاندان کے لیے عدالتی کمیشن ‘ سیف اللہ فیملی، چوہدری بردران، ہاشوانی ..

لاہور(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔06اپریل۔2016ء) پاکستان میں 2013کے عام انتخابات کے بعد3 جنوری 2014 کو اخبارات میں انتخابی اثاثہ ڈیکلریشنز سے متعلق رپورٹ شائع کی گئی جس کے مطابق شریف برادران کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں نہیں ہوتا۔رپورٹ کے مطابق وزیرِاعظم نواز شریف کا کوئی ذاتی گھر نہ پاکستان میں ہے نہ باہر۔

وہ رائے ونڈ کے جس گھر میں رہتے ہیں وہ اس کے بارے میں پرویزرشید نے موقف اختیار کیا کہ وہ میاں بردران کی والداہ کی ملکیت ہے۔میاں نوازشریف کبھی مری یا چھانگا گلی جائیں تو اپنی اہلیہ کلثوم نواز کے گھر میں قیام کرتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق شہباز شریف کی اگرچہ لندن میں دو عدد املاک ہیں لیکن لاہور والا گھر اہلیہ نصرت شہباز کی ملکیت ہے۔

(جاری ہے)

لاہور کی جن 5 املاک کا مجموعی رقبہ 676 کنال بنتا ہے وہ بھی شہباز شریف کو والدہ محترمہ نے ہبہ کیا۔

دونوں بھائیوں کے زیرِاستعمال دو لینڈ کروزر بھی ذاتی نہیں تحفہ ہیں۔2013 کی اثاثہ تفصیلات کے مطابق نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر صاحب کے زیرِ استعمال کار ان کی اہلیہ مریم نواز کو متحدہ عرب امارات سے تحفہ ملی۔دوسری جانب تین روز قبل پاناما پیپرز کی اشاعت سے دنیا میں جو ادھم مچا اس کے اثرات پاکستان میں اتنی شدت سے محسوس کیے گئے ‘ان دستاویزات کے مطابق شریف خاندان پاکستان کا امیرترین خاندان ہے-دباﺅ زیادہ بڑھا تو وزیراعظم میاں نواز شریف کو بادلِ نخواستہ قوم سے خطاب میں اپنے خاندانی کاروبار کی 80 سالہ تاریخ، صنعتی قربانیوں اور ان مصائب پر تفصیلی روشنی ڈالنا پڑی کہ جن کا پاناما پیپرز کی تفصیلات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

انھوں نے حزبِ اختلاف کے ناقابلِ رفع شبہات رفع کرنے کے لیے پہلے سے موجود نیب یا ایف آئی اے کو کھلی تحقیقات کا حکم نہیں دیا بلکہ یک ریٹائرڈ جج پرمشتمل کمیشن بٹھانے کا اعلان کر دیا۔سوال یہ ہے کہ اگر خود مختار نیب اور وفاقی ایف آئی اے ایسے ہی بے اعتبارے ہیں تو پھر آصف زرداری ، شعیب شیخ ، ڈاکٹر عاصم اور ایان علی سمیت کسی بھی اور پاکستانی شہری کی چھان بین کے لیے کیوں ہیں۔

جس تحقیقاتی کمیشن کا وزیرِاغطم نے اعلان کیا اس کا دائرہ صرف شریف خاندان تک ہی کیوں۔سب سے زیادہ آف شور کمپنیوں کی مالک لکی مروت کی سیف اللہ فیملی، گجرات کی چوہدری فیملی، ہاشوانی فیملی ‘ ملک ریاض حسین یا رحمان ملک سمیت دیگر 200سے زائد افراد کی آف شور کمپنیوں کی چھان بین کون کرے گا۔ اگر نیب اور ایف آئی اے کریں گے تواگر وزیراعظم اور ان کے خاندان کے ہاتھ صاف ہیں تو خصوصی کمیشن کیوں؟ جسے تکلیف ہو وہ باقاعدہ عدالتوں میں کیوں نہ جائے؟آئس لینڈ کے مستعفی ہونے والے وزیرِاعظم کو کسی جوڈیشل کمیشن کا خیال کیوں نہ سوجھا ؟ انھوں نے کوئی غفلت یا جرم ثابت ہونے سے پہلے ہی استعفی دینا کیوں پسند کیا؟ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سویڈن اور بھارت وغیرہ میں پہلے سے قائم احتسابی ادارے ہی کیوں حرکت میں آ رہے ہیں؟حزبِ اختلاف کی سیاسی دوکان چمکانے کی علت اپنی جگہ۔

مگر انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کچھ غلط ثابت نہ ہو جائے کسی کو بھی مجرم کہنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔وزیرِ اعظم کے بچوں کا ملکی سیاست میں فی الحال کوئی باضابطہ تسلیم شدہ اعلانیہ کردار بھی نہیں ہے۔لہذٰا ان بچوں پر صرف اس لیے کیچڑ اچھالنا مناسب نہیں کہ وہ وزیرِ اعظم کی اولاد ہیں۔