بادشاہت کا دور نہیں،ایک سرکاری ملازم کو گھر دیدیا جاتا ہے اور دوسرے کو محروم کر دیا جا تا ہے ‘ لاہور ہائیکورٹ

عدالت نے وزیراعلیٰ کے صوابدیدی اختیار اور میرٹ کے برعکس الاٹ کی گئی سرکاری رہائشگاہوں کی الاٹمنٹ پالیسی طلب کرلی

منگل 5 اپریل 2016 20:17

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔05 اپریل۔2016ء ) لاہور ہائیکورٹ نے وزیر اعلی پنجاب کے صوابدیدی اختیار اور میرٹ کے برعکس الاٹ کی گئی سرکاری رہائشگاہوں کی الاٹمنٹ پالیسی طلب کرتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ سرکاری رہائشگاہوں کی یکساں پالیسی نافذ نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات بڑھ گئے ہیں،ایک سرکاری ملازم کو گھر دے دیا جاتا ہے اور دوسرے کو محروم کر دیا جاتا ہے۔

گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی ۔درخواست گزار نے موقف اپنایا کہ وہ پنجاب اسمبلی میں ملازم ہے مگر اسکے باوجود اسے گھر الاٹ نہیں کیا جا رہا ۔قوانین کے تحت سول سیکرٹریٹ،ہائیکورٹ اور پنجاب اسمبلی کے ملازمین ہی سرکاری رہائش رکھنے کے اہل ہیں مگرسیکرٹری سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن اور سٹیٹ افسرنے میرٹ کے برعکس دیگر اداروں کے اہلکاروں کو بھی سرکاری رہائشگاہیں الاٹ کر رکھی ہیں۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران محکمہ سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریٹرکے لیگل ایڈوائز نے فاضل عدالت کے رو برو موقف اپنایا کہ تمام سرکاری رہائشگاہیں قوانین کے تحت الاٹ کی گئی ہیں ۔597سرکاری رہائشگاہیں وزیر اعلی کے صوابدیدی اختیار کے تحت الاٹ کی گئی ہیں۔جسٹس سید منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بادشاہت کا دور نہیں،ایک سرکاری ملازم کو گھر دیدیا جاتا ہے اور دوسرے کو محروم کر دیا جاتا ہے۔سرکاری رہائشگاہوں کی یکساں پالیسی نافذ نہ ہونے کی وجہ سے عدالتوں میں مقدمات بڑھ گئے ہیں۔ عدالت کو آگاہ کیا جائے کہ سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے وزیر اعلی نے کیا پالیسی بنا رکھی ہے ۔ کیس کی مزید سماعت 15مئی تک ملتوی کر دی گئی ۔

متعلقہ عنوان :