بلوچستان اسمبلی نے 2قرار دادیں منظور جبکہ دو نمٹادیں

جمعہ 1 اپریل 2016 21:42

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم اپریل۔2016ء) بلوچستان اسمبلی نے دو قرارددادیں منظور کرلیں جبکہ دو قراردادیں نمٹا دی گئی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعہ کے روز سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں ہوا جس میں ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے اپنی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبے کے سرکاری ملازمین کی فلاح و بہبود اور مہنگائی کی شرح میں روز بروز اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں مذہبی تہواروں کے موقع پر ایک ماہ کی تنخواہ بطور بونس دی جائے تاکہ ان کی معاشی پریشانیوں کا کسی حد ازالہ ہوسکے انہوں نے کہاکہ گریڈ ایک سے گریڈ14کے ملازمین کی تنخواہیں کم ہونے کی وجہ سے مذہبی تہواروں پر انہیں پریشانی کا سامنا کر نا پڑتا ہے لہٰذا عید ‘کرسمس اور ہولی کے موقع پر ملازمین کو ایک تنخواہ بطور بونس دیا جائے۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر شمع اسحاق نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جن ملازمین کی تنخواہیں 12سے14ہزار روپے ہو وہ کیسے تہوار مناسکتے ہیں لہٰذا قرارداد منظور کی جائے ۔شاہدہ رؤف نے کہاکہ ہم اس قرارداد کی مخالفت نہیں کرتے لیکن پہلے اس پر بیٹھ کر غور کیا جائے کہ جن ملازمین کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے یا جو غیر حاضر رہتے ہیں کیا ان سب کو یہ بونس دیا جائے انہوں نے کہاکہ حکومت کارکردگی کی بنیاد پر ملازمین کو بونس دے۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ حکومت کے پاس فنڈز عوام کی امانت ہیں اور امانت کا درست استعمال حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے اور یہ ایوان صوبے کے فنڈز کی محافظ ہے قرارداد کی منظوری سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ سال بھر میں کتنے تہوار منائے جاتے ہیں اور کیا ہمارے پاس اتنے فنڈز ہیں کہ ہم سب کو دے سکیں ۔صوبائی وزیر صحت میر رحمت صالح بلوچ نے کہاکہ صوبائی حکومت پہلے ہی سالانہ بجٹ کا 90فیصد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات پر خرچ کررہی ہے جو کچھ فنڈز بچتے ہیں وہ بھی اگر بونس دینے پر خرچ کرینگے تو عوام کو کیا دے سکیں گے ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ ڈاکٹر رقیہ ہاشمی اپنی قرارداد پر زور نہ دیں بلکہ واپس لیں جس پر ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی نے اپنی قرارداد واپس لی سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے قرارداد نمٹا دی ۔عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اپنی قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ بلوچستان جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا43فیصد بنتا ہے یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے اس کیلئے بجلی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے دوسری جانب صوبے میں گزشتہ ایک دہائی سے عین سیزن میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ شروع کردی جاتی ہے اس سے زمینداروں کو ناقابل تلافی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ صوبے کے معروف زمیندار بھی زراعت سے دستبردار ہونے پر مجبور ہو گئے ہیں اور یہ رحجان بلاشبہ صوبے کی مفاد میں کسی طرح ہی نہیں اور یہ صوبہ اس رحجان کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا دوسری جانب سال نو کا سیزن شروع ہو چکا ہے اور حسب سابق صوبے میں طویل لوڈشیڈنگ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے لہٰذ ایہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کریں کہ صوبے میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم کرکے زمینداروں کو 15گھنٹے بجلی فراہم کی جائے انہوں نے کہاکہ اس مسئلے کی بارہاں نشاندہی کی جاچکی ہے اور قرارداد یں بھی منظور ہو چکی ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے اس سے نمٹنے کیلئے صوبائی حکومت اپنے وسائل سے صوبے میں بجلی کے منصوبے شروع کریں رکن اسمبلی عبدالمجید خان اچکزئی نے کہاکہ لوڈشیڈنگ اہم مسئلہ ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ صوبے میں گزشتہ پندرہ سال کے دوران زیر زمین پانی کو ریچارج کرنے پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ 80فیصد فنڈز سڑکوں کی تعمیر کیلئے استعمال کیے گئے پانی کو ریچارج کرنا اہم ترین مسئلہ ہے اس کیلئے ہمیں سمال اور چیک ڈیمز بنانے ہونگے محکمہ زراعت کے حکام صوبے کے مختلف علاقوں میں آب و ہوا کی مناسبت سے فصلوں اور پھلوں کی کاشت کے حوالے سے عوام کو آگاہ کریں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ پانی کے منصوبوں کیلئے وفاقی حکومت سے 50ارب روپے منظور کرارہے ہیں ہمارے صوبے میں سولر سے بجلی پیدا کرنے کی اور زیادہ امکانات ہے وفاقی حکومت نے بھی 2018تک لوڈشیڈنگ ختم کرنے کیلئے اقدامات کردئیے ہیں انہوں نے کہاکہ ہم قرارداد کی حمایت کرتے ہیں اس وقت بھی صوبہ اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی پید اکررہا ہے مگر ہمارے پاس ٹرانسمیشن لائنیں نہیں ہیں ۔

مولانا عبدالواسع نے کہاکہ مجید اچکزئی کی تجاوز درست ہے ہم قرارداد کی حمایت کرتے ہیں ‘وزیراعلیٰ پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل کمیٹی بنا کر اسلام آباد جا کر اس مسئلے پر وزیراعظم سے بات چیت کریں ۔صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ پہلے ہمارے پاس بہتر تجاوز ہو تاکہ ہم ان پر وفاق اور وزیراعظم سے بات کریں انہوں نے کہاکہ صوبے میں 13ملین ایکڑ فٹ پانی ضیاع ہورہا ہے اس کو بچانے کیلئے منصوبہ بندی کررہا ہے ایوان نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی‘پشتونخوامیپ کی عارفہ صدیق نے اپنی قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ موجودہ صوبائی حکومت صوبے سے تعلیمی پسماندگی ختم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہیں تعلیمی بجٹ کو 3.5سے بڑھا کر 26فیصد کردیاگیا ہے صوبے میں گلوبل پارٹنر شپ کے ذریعے ہزاروں نئے پرائمری سکولز قائم کرنے کے ساتھ سینکڑوں پرائمری سکولوں کو مڈل اور مڈل سکولوں کو اپ گریڈ کرکے ہائی کا درجہ دیا جارہا ہے اس کے علاوہ درجنوں نئے کالجز قائم کرنے کے ساتھ مختلف کالجز اپ گریڈ کیے جارہے ہیں اور ساتھ ہی نئے یونیورسٹیاں اور میڈیکل کالج قائم کیے جارہے ہیں خصوصی طور پر تعلیمی معیار کو بہتر کرنے کیلئے صوبے کے مختلف اضلاع میں کیڈٹ اور ریزیڈنشل کالجز بھی قائم کیے جارہے ہیں حکومت کے ان اقدامات کو یقینا تحصیل کی نظر سے دیکھا جارہا ہے لیکن ان تمام اقدامات کے باوجود ایک ناگزیر کمی ضرور محسوس کی جارہی ہے کہ طلباء کیلئے کیڈٹ اور طالبات کیلئے ریزیڈنشل کالجز کی طرز پر ادارے قائم کیے جائیں اور سالانہ بجٹ 2016-17 میں کم ازکم تین اسے ادارے قائم کرنے کیلئے رقم مختص کی جائے جن میں سے ایک کوئٹہ اور ایک ‘ایک صوبے کے شمالی اور جنوبی اضلاع کیلئے ہوں مجید خان اچکزئی نے کہا کہ گلستان میں اس وقت80بوائز سکول ہے جب لڑکیوں کیلئے صرف 3ہے سکول بنائے گئے ہیں مگر وہاں پر اساتذہ نہیں ہے جن سے آفادیت ختم ہورہی ہے ان کو فعال کیا جائے اور طالبات کیلئے زیادہ سکولز بنائے جائیں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ ریزیڈنشل اور کیڈٹ کالجز میں طلباء کی ایک محدود تعداد ہے جبکہ زیادہ طلباء دیگر اداروں میں ہے ہماری تعلیمی نظام کو بہتر بنانے حاضریوں اور طلباء کے داخلوں کی مہم جاری ہے پل ڈاٹ کے سروے کے مطابق گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال زیادہ طلباء و طالبات کو سکولوں میں داخل کرایاگیا ہے انہوں نے کہاکہ اٹھارویں ترمیم سے پہلے جو کیڈٹز کالجز بنائے تھے وہ بھی صوبے کے حوالے کیے گئے ہیں اب ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ مزید کیڈٹ اور ریزیڈنشل کالج بنا سکیں محرکہ اپنی قرارداد پر زور نہ دیں بلکہ واپس لے جس پر محرکہ نے اپنی قرارداد واپس لے لی ۔

اجلاس میں ثمینہ خان نے کشور احمد جتک‘ڈاکٹر شمع اسحاق بلوچ ‘راحت جمالی ‘یاسمین لہڑی ‘عارفہ صدیق‘معصومہ حیات ‘سپوژمی اچکزئی اور ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی کی مشترکہ قرارداد ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہاکہ صوبہ بلوچستان میں آرٹ گیلری کے نام سے قائم ادارہ غیر فعال اور بنیادی سہولیات سے محروم ہے صوبے میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے مگر آرٹ گیلری کی سہولیات سے استفادہ حاصل کرنے کے مواقع میسر نہیں جس سے وہ اپنی علمی استعداد میں اضافہ کرسکے لہٰذا یہ ایوان صوبائی حکومت سے سفارش کرتا ہے کہ مذکورہ بالا ادارے کو فعال کرنے کے ساتھ اسے بنیادی سہولیات سے آراستہ کیا جائے تاکہ ہنر مندنوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ اس سے مستفید ہوسکیں قرارداد پر ثمینہ خان اور سردار عبدالرحمن کھیتران نے اظہار خیال کیا بعدازاں ایوان نے یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی اس کے بعد سپیکر نے اجلاس پیر4اپریل سہ پہر4بجے تک ملتوی کردیا۔

متعلقہ عنوان :