سال 2015 ء، پاکستان میں 324 افراد کو سزائے موقت دی گئی

زیادہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں، اس وقت بھی 8 مزید افراد سزائے موت کے منتظر تشدد کے واقعات میں کے باوجود 4612 افراد ہلاک ہوئے، دہشت گردی کے 706 حملوں میں 619 عام شہری ، 348 سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور 33 دھماکہ کار شہید ہوئے، انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کی رپورٹ

جمعہ 1 اپریل 2016 21:31

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔یکم اپریل۔2016ء) انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان نے پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے برائے سال 2015 ء جاری کر دی ہے ۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ پاکستان میں 324 افراد کو سزائے موقت دی گئی جس میں سے زیادہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اس وقت بھی 8 مزید افراد سزائے موت کے منتظر ہیں ۔

انصاف کی فراہمی میں تاخیر دیکھنے میں آئی ہے تشدد کے واقعات میں کمی آنے کے باوجود 4612 افراد ہلاک ہوئے دہشت گردی کے 706 حملوں میں 619 عام شہری ، 348 سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور 33 دھماکہ کار شہید ہوئے انسانی حقوق کمیٹی کی رپورٹ کا اجراء مقامی ہوٹل میں کیا گیا ۔ اس موقع پر آر سی پی کے چیئرپرسن کامران عارف نے اس وقت ان ملکی اور عالمی غیر سرکاری تنظیموں کو پاکستان میں ریاستی اور غیر ریاستی عناصر سے خطرہ جو کہ حقوق کے حوالے سے کام کر رہے ہیں انسنانی حقوق رپورٹ میں اور میڈیا میں آنے والی رپورٹس پر مشتمل ہے اس موقع پر قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے ممبر ڈاکٹر یحیٰ اجمل ۔

(جاری ہے)

۔۔ نے بھی کہا کہ حکومت نے ابھی تک ان کے ادارہ کو کام کرنے کے لئے صحیح جگہ فراہم نہیں کی گئی ہے جس پر کامران عارف نے کہا کہ ہم آپ کے ادارے کے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں گے رپورٹ کی تقریب میں رپورٹ کے ایڈیٹر وقار مصطفیٰ اور عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک موجود تھے ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ نے 20 قوانین بنائے اور صدر نے 12 آرڈیننس جاری کئے ۔

صوبائی اسمبلیوں نے 120 قوانین کی منظوری دی جس میں خیبرپختونخوا نے سب سے زیادہ 40 قوانین کی منظوری دی جبکہ سندھ نے 32 ، پنجاب نے 31 اور بلوچستان اسمبلی نے 17 قوانین منظور کئے ۔ صوبوں نے اٹھارویں ترمیم کے تحت قانون سازی کے وسیع اختیارات کا استعمال جاری رکھا ۔ اہم قوانین تو منظؤر کئے لیکن ان کے نفاذ کے حوالے سے سست روی کا مظاہرہ کیا ہے تمام صوبوں ، وفاقی دارالحکومت اور کنٹونمنٹ بورڈ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کو باضابطہ بنانے کے لئے قوانین وضع کئے گئے ۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 21 ویں آئینی ترمیم کی بدولت فوجی عدالتوں کو فوجی ٹریبونلز کے تحت دہشت گردی سے متعلق مقدمات میں شہریوں اور بچوں سمیت افراد کے مقدمات کی سماعت کا اختیار مل گیا رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 میں 324 افراد کو سزائے موت دی گئی ہے جس میں سے زیادہ کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں اور اس وقت بھی 8 ہزار مزید قیدی سزائے موت کے منتظر ہیں انصاف کی فراہمی میں تاخیر دیکھنے میں آئی اور سپریم کورٹ میں 2700 ، لاہور ہائی کورٹ میں 60 ہزار ، سندھ ہائی کورٹ میں 60 ہزار ، بلوچستان ہائی کورٹ میں 9 ہزار اور پشاور ہائی کورٹ میں تقریباً 28 ہزار سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں تشدد کے واقعات میں 4612 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 2014ء میں 7622 افراد ہلاک ہوئے تھے جو کہ 40 فیصد کم ہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے ۔

706 حملوں میں 619 عام شہری ، 348 سیکورٹی فورسز کے اہلکار اور 325 جنگجوں اور حکومت کے 33 رضاکاروں سمیت 1325 افراد ہلاک ہوئے پولیس مقابلوں میں 2108 مرد اور 7 خواتین بھی ہلاک ہوئیں ۔ 2015 میں پاکستان میں 18 خودکش حملے کئے گئے جو کہ 2014 کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے پنجاب میں جرائم کے واقعات 382932 ، سندھ میں قتل کے واقعات کی شرح 2014 کے مقابلے میں 42 فیصد کم رہی اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالتریب ایک اور دس فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔

ملک بھر میں پانچ ڈاکٹروں اور تین وکلاء کو ان کے عقیدے کی بنیاد پر قتل کیا گیا ملک بھر کی جیلوں میں 65 قیدی ہلاک اور 419 قیدیوں کو موت کی سزا سنائی گئی سزائے موت کے 327 قیدیوں کو پھانسی دی گئی اور اس کے نتیجے میں پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہو گیا جہاں پھانسیوں کی شرح سب سے زیادہ ہے اس وقت بھی تحقیقاتی کمیشن میں جبری گمشدیوں کے 1390 مقدمات التواء کا شکار ہیں جنوری سے نومبر 2015 تک بلوچستان میں جبری گمشدگی کے کم از کم 151 واقعات پیش آئے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پاسپورٹ سفر کے لئے دنیاکے بدترین پاسپورٹوں میں شامل رہا اور سفر کے لئے پابندیوں کے حوالے سے پاکستان ، صومالیہ کے پاسپورٹ دنیا بھر کے بدترین پاسپورٹوں میں تیسرے نمبر پر رہے پاکستان بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کے 58 واقعات پیش آئے توہین مذہب کے الزام میں 22 افراد گرفتار ہوئے جن میں سے 15 مسلمان ، 4 مسیحی اور تین احمدی شامل ہیں ۔

سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت تک ایک کروڑ پندرہ لاکھ اہل ووٹروں کا اندراج نہیں ہو سکا وفاقی اور صوبائی کابینہ میں خواتین کی تعداد انتہائی کم رہی بلوچستان ، سندھ اور پنجاب میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے امیدوار کو براہ راست ووٹ دینے کے حق سے محروم رکھا گیا فاٹا کے علاوہ علاقے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا عمل التواء کا شکار رہا

متعلقہ عنوان :