پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کاترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں امتیازی سلوک پر شدید احتجاج ،حکومتی اور اپوزیشن اراکین کی مخالفانہ نعرے بازی

جمعہ 1 اپریل 2016 17:00

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔یکم اپریل۔2016ء) پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن نے حکومت پر ترقیاتی فنڈز کی تقسیم میں امتیازی سلوک کا الزام عائد کرتے ہوئے شدید احتجاج کیا اور دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت اپنے رویے میں تبدیلی نہ لائی تو ایوان کو نہیں چلنے دیں گے اور ڈی سی اوز دفاتر کا بھی گھیراؤ کیا جائے گا ، اس موقع پر اپوزیشن اور حکومتی بنچوں سے ایک دوسرے کیخلاف نعرے بازی بھی کی گئی ، جبکہ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے کہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور اپوزیشن کے حلقوں کو قطعی طور پر ترقیاتی منصوبوں سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے ،میں یقین دلاتا ہوں کہ اپوزیشن سے مشاورت کر کے معاملات طے کر لیں گے ، اجلاس کے دوران چھ آرڈیننسز کی مدت میں نوے روز کی توسیع کی منظوری دیدی جبکہ دہشتگردی سے متاثرہ سویلین کو ریلیف اور ان کی بحالی کیلئے آرڈیننس کو ایوان میں پیش کر دیا گیا جسے اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا ۔

(جاری ہے)

پنجاب اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز مقررہ وقت نو بجے کی بجائے ایک گھنٹہ 25منٹ کی تاخیر سے اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال کی صدارت میں شروع ہوا ۔ اجلاس میں صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے کہا کہ حکومتی اراکین پارلیمانی پارٹی اور دیگر اجلاسوں میں اپنا نقطہ نظر اپنی جماعت تک پہنچا تے ہیں لیکن اپوزیشن کے اراکین کیلئے اسمبلی ایک پلیٹ فارم ہے ۔

اب بلدیاتی ادارے وجود میں آرہے ہیں رہے ہیں اور ان کیلئے معاملات طے کرنے ہیں اس لئے اپوزیشن پری بجٹ سیشن میں اپنی مثبت اور قابل عمل تجاویز دے ۔اپوزیشن نے گزشتہ روز کورم کی نشاندہی کر کے جو رویہ اپنایا گیا اسے قطعی طور پر درست اقدام نہیں کہا جا سکتا ۔ا گر اپوزیشن تجاویز نہیں دینا چاہتی تو ہمیں بتا دے ہم پری بجٹ بحث کیلئے مختص سات دنوں میں اور کوئی اور بزنس نمٹا لیں۔

انہوں نے کہا کہ قائد حزب اختلاف نے اراکین اسمبلی کو دئیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کئے گئے ہیں اس بارے معلوم کرایا گیا ہے اور انکی بات درست نہیں اور میں انہیں اس سے آگاہ کر دوں گا۔ میں واضح کہتا ہوں کہ اپوزیشن اراکین کے حلقوں کو قطعی طور پر ڈویلپمنٹ سے محروم نہیں رکھا جانا چاہیے اور ہم اپوزیشن سے مشاورت سے معاملات طے کر لیں گے اور انکو اطمینان اور ان کی مرضی او رمنشاء کے مطابق فیصلہ ہو گا ۔

جس پر اسپیکر نے کہا کہ ”آپ نے توقع سے زیادہ بات کر دی ہے “۔ قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے کہا کہ ماضی کے تجربات سب کے سامنے ہیں۔ ہم چوتھے پارلیمانی سال میں داخل ہو رہے ہیں اور تین سالوں میں حکومت نے اپوزیشن کو دیوار کے ساتھ لگائے رکھا ۔ وزیر اعلیٰ نے ایوان میں کہا تھاکہ اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلوں گا لیکن انہوں نے تین سالوں میں اپوزیشن سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی ۔

ہم منتخب لوگ ہیں لیکن ہم واویلا کر رہے ہیں ۔ ہمارے مقابلے میں ہارے ہوئے لوگوں کو سکیمیں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے 330کے مقابلے میں ہم 35سے 40لوگ ہیں ، ہمارے مینڈیٹ کا احترام ہونا چاہیے ۔ہم کسی اور ملک سے منتخب ہو کرنہیں آئے ۔ اگر حکومت ہمارے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرے گی تو ہم بھی اس کے مینڈیٹ کااحترام نہیں کریں گے۔ تمام حکومتی اراکین کو ڈی سی اوز کی طرف سے لیٹرز ارسال کئے گئے ہیں جس میں پچیس ،پچیس کروڑ کی سکیمیں مانگی گئی ہیں ۔

وزیر قانون جو کہہ رہے ہیں وہ کیسے ما ن لوں کیونکہ ان کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور پھر کہتا ہوں کہ اگر حکومت نے ہمارے ساتھ یہی رویہ رکھنا ہے تو ہم آخری حد تک جائیں گے اور اس ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے اور ڈی سی اوز کے دفاتر کا بھی گھیراؤ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ کمیٹی میں اپوزیشن کے اراکین کو بھی شامل کیا جائے ۔

رانا ثنا اللہ نے جن خیالات کا اظہار کیا اسے دیر آید درست آید سمجھتے ہیں کیونکہ ہم نے کبھی مخالفت برائے مخالفت نہیں کی۔ اگر ہم نے تنقید کی ہے تو یہ اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔ خیبر پختوانخواہ اور سندھ میں تمام جماعتوں کے اراکین کو بلا تفریق فنڈز دئیے جارہے ہیں ۔وزیر قانون نے ایوان میں جن جذبات کا ظہار کیا ہے میں انہیں خوش آمدید کہتا ہوں ۔

رانا ثنا اللہ خان نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی باتوں میں یقینا ہمارے لئے اصلاح کا پہلو ہوگا لیکن یہ خود ہی فیصلہ کریں کہ سو ا دو سال تک کنٹینر پر چڑھے رہے ۔ ہم نے تو آپ کا مینڈیٹ تسلیم کیا ہے تین سال سے آپ نے ہمارا مینڈیٹ تسلیم نہیں کیا او ردھاندلی دھاندلی کر رہے ہیں ۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم آخری حد تک جائیں گے بھئی آپ تو آخری حد سے واپس آئے ہیں ۔

رانا ثنا اللہ کے ان ریمارکس پر محمود الرشید سمیت دیگر اپوزیشن اراکین نے احتجاج شروع کر دیا ۔ میاں محمود الرشید نے کہا کہ میں تو ان کی تحسین کر رہا ہوں لیکن یہ ہمیشہ سے منفی سوچ رکھتے ہیں۔ اس دوران اپوزیشن اراکین نے گو نواز گو کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جس کے جواب میں حکومتی بنچوں پر بیٹھی خواتین رو عمران رو کے نعرے لگاتی رہیں۔ محمو دالرشید نے کہا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے ۔

ہم آپ سے بھیک نہیں مانگ رہے ۔ میں نے کبھی بالواسطہ یا بلاواسطہ تمنا نہیں کی کہ میری وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرائی جائے ۔ قبل ازیں اجلاس کے آغاز پر خزانہ ، محنت و انسانی وسائل اور آبکاری و محصولات سے متعلق سوالات کے جوابات دئیے گئے ۔ صوبائی وزیر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مجتبیٰ شجاع الرحمن نے ایوان کو بتایا کہ ماضی میں ورلڈ بینک سے معاہدے کے تحت اپنے ٹارگٹ سے زائد ریکوری کرنے والے ملازمین کو مراعات دی گئیں اور اس مد میں پورے پنجاب میں 18کروڑ 7لاکھ روپے کی رقم تقسیم کی گئی تھی ۔

حکومتی رکن اسمبلی امجد علی جاوید نے اسپیکر کو بتایا کہ ان کا سوال غلط ہونے کی وجہ سے دو بار موخر کیا گیا ۔ آج تیسری مرتبہ سوال کا جواب آیا ہے لیکن اس میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ محکموں نے ایوان کو مذاق بنایا ہوا ہے ۔ محکمے ایوان کو کیا اہمیت دے رہے ہیں ۔ پارلیمانی سیکرٹری خزانہ رانا بابر حسین نے تسلیم کیا کہ جواب میں کوئی تبدیلی نہیں جس پر اسپیکر نے اس سوال کو محکمہ خزانہ کی قائمہ کمیٹی کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔

جماعت اسلامی کے ڈاکٹر وسیم اختر نے کہا کہ لاہور صوبائی دارالحکومت ہے اورہمیں اس کی ترقی عزیز ہے لیکن یہاں تو سپلیمنٹری بجٹ سے منصوبوں کی تکمیل ہوتی ہے اور سارے فنڈز لاہور پر لگائے جارہے ہیں۔ سپلیمنٹری گرانٹ استعمال کرکے پھر اسمبلی سے انگوٹھا لگوا لیا جاتا ہے ۔ جنوبی پنجاب کے فنڈز میں کٹوتی کر کے لاہور میں لگائے جارہے ہیں اس لئے ہم کہتے کہ ہم لاہور کے ساتھ رہنے کیلئے تیار نہیں ہمیں الگ صوبہ دیا جائے ۔

پارلیمانی سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ڈاکٹر وسیم اختر نے خود تسلیم کیا ہے کہ لاہور کی ترقی اہم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپلیمنٹری گرانٹ کی اسمبلی سے منظوری لی جاتی ہے۔ وزیر ایکسائزاینڈ ٹیکسیشن نے خدیجہ عمر کے سوال کے جواب میں بتایا کہ شادی ہالز کی رجسٹریشن محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی ذمہ داری نہیں۔ پی آر اے سیلز ٹیکس آن سروسز کی مد میں وصولی کرتی ہے جبکہ محکمہ ایکسائز پراپرٹی اور پروفیشنل ٹیکس وصول کرتا ہے ۔

حکومتی رکن امجد علی جاوید نے سوال اٹھایا کہ محنت و انسانی وسائل کی اربوں روپے کی اراضی کامیسٹ یونیورسٹی کو دی گئی لیکن مزدور کے بچوں سے فیس وصولی کی جارہی ہے۔صوبائی وزیر محنت و افرادی قوت راجہ اشفاق سرو رنے کہا کہ کامسیٹ یونیورسٹی کو 2001ء میں بیس سال کی لیز پر اراضی دی گئی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ مزدوروں کے بچوں کیلئے تیس فیصد کوٹہ رکھا گیا تھا لیکن بی ایس کے بعد ایم فل اور ایم ایس سی کیلئے میرٹ بہت زیادہ کر دیا گیا تھا لیکن ہم نے اس معاملے کو اٹھایا ہے ۔

اسی طرح غیر ملکی کورسز کیلئے بھی فیس کے حوالے سے بات کی ہے ۔ صوبائی وزیر راجہ اشفاق سرو رنے پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی راحیلہ انور کے سوال کے جواب میں تسلیم کیا کہ رجسٹرڈ مزدوروں کو جو پنشن دی جاتی ہے اس کی رقم انتہائی کم ہے ۔اٹھاریں ترمیم کے بعد محکمے کی پوری طرح سے ذمہ داری صوبے کے پاس نہیں آئی ۔ای او آئی بی کے معاملات وفاق کے ہیں لیکن اسے جلد صوبائی دائر کار میں لے آئیں گے۔

اجلاس کے دوران پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی آصف محمود نے وزیر اعلیٰ کی ایوان میں حاضریوں بارے اسمبلی سیکرٹریٹ سے ایک عام شہری کی طرف سے پوچھے جانے کی بات کی لیکن اسپیکر نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی جس پر انہوں نے کہا کہ کیا وزیر اعلیٰ کے بارے میں یہاں بات کرنا گنا ہ ہے ،اسپیکر نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کی لیکن وہ احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے ۔

پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی سردارشہاب الدین نے حکومتی رکن پیر زادہ میاں شہزاد مقبول بھٹہ کی طرف سے پیش کی جانے والی تحریک استحقاق کو کمیٹی کے سپرد کرنے کے حوالے سے بات کرنا چاہی تو اسپیکر نے کہا کہ جب تک اس کا جواب نہیں آجاتا اسے کمیٹی کے سپرد نہیں کیا جا سکتا اور اسپیکر کی طرف سے مزید بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر سردار شہاب الدین بھی احتجاجاً ایوان کی کارروائی سے واک آؤٹ کر گئے ۔

اسپیکر نے حکومتی رکن قاضی عدنان فرید کو اراکین کو ایوان میں منا کر باہر بھجوایا جو انہیں منا کر واپس لے آئے ۔ صوبائی وزیر قانون رانا ثنااللہ خان کی طرف سے آئین کے آرٹیکل 128(2)(اے)کے تحت قرارداد کی منظوری کے بعد آرڈیننس ویجی لینس کمیٹیاں پنجاب 2016،آرڈیننس ( ترمیم ) فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی لاہور 2015 ،آرڈیننس بھٹہ خشت پر چائلڈ لیبر کی ممانعت پنجاب2016، آرڈیننس شادی بیاہ کی تقریبات پنجاب 2015،آرڈیننس ( ترمیم )اکنامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پنجاب2016اور آرڈیننس ( ترمیم ) جنگلات پنجاب 2016مدت میں تین ،تین ماہ کی توسیع کیلئے ایوان میں پیش کئے گئے جس کی منظوری دیدی گئی ۔

صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ خان نے آرڈیننس ( ریلیف و بحالی) دہشتگردی سے متاثرہ سویلین پنجاب 2016ء پیش کیا جسے اسپیکر نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر کے دو ماہ میں رپورٹ طلب کر لی ۔ رانا ثنا اللہ خان نے اسپیکر رانا محمد اقبال کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کمیٹی کو ہدایت کی جائے کہ اس کی دو ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے اور جو بھی ممبران اس میں پیش ہو کر اپنی آراء اور تجاویز دینا چاہیں ان سے بھی بھرپور مشاورت لی جائے ۔

اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ ملک نے کہا کہ پنجاب پبلک سروس کمیشن نے امتحان کے بعد 7مارچ کو 65 نشستوں کیلئے نتائج کا اعلان کیا لیکن اس کے کچھ روز بعد پنجاب پبلک سروس کمیشن نے دوبارہ ایک فہرست جاری کر دی ہے جس پر اسپیکر نے کہا کہ آپ جو بات کر رہی ہیں ایسا ہو نہیں سکتا ،آپ اس پر تحریری کچھ لے آئیں۔ اجلاس میں مختلف محکموں کی رپورٹس بھی ایوان میں پیش کی گئیں۔ اجلاس میں حکومتی اراکین رانا ارشد اور آصف باجودہ نے پری بجٹ بحث میں حصہ لیا اور بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس پیر کی دوپہر دو بجے تک کیلئے ملتوی کر دیا ۔