حکومت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حقوق نسواں بل پر مولانا فضل الرحمٰن کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 1 اپریل 2016 12:40

حکومت کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں حقوق نسواں بل پر مولانا فضل الرحمٰن ..

اسلام آباد(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔01اپریل۔2016ء) حکومت نے 11 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں خواتین کی حمایت میں پیش کیے جانے والے دو بِلوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کرلیا۔حکومتی ذرائع کے مطابق قانونی ماہرین اور وزرا پر مشتمل حکومتی ٹیم کی آئندہ ہفتے مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کا امکان ہے، جس میں ان بِلوں کے حوالے سے ان کی جماعت کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جے یو آئی (ف) کی جانب سے حکومت کو آگاہ کردیا گیا ہے کہ 3 یا 4 اپریل کو حکومتی ٹیم سے ممکنہ ملاقات میں مولانا فضل الرحمٰن کے ہمراہ وکلاءکی ٹیم بھی موجود ہوگی۔وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق بیرسٹر ظفراللہ نے حکومتی ٹیم اور مولانا فضل الرحمٰن کی آئندہ ہفتے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملاقات کی حتمی تاریخ، سربراہ جے یو آئی (ف) کی وطن واپسی کے بعد طے کی جائے گی۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ انسداد عصمت دری اور غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے بِلوں پر غور کے لیے 29 مارچ کو وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف) کے اراکین کی جانب سے بِلوں کی مخالفت کے بعد ملتوی کرنا پڑا تھا۔حکومت زیر التوا چھ بِلوں پر 6 اپریل کو 10 رکنی کمیٹی کے آئندہ اجلاس سے قبل اتفاق رائے قائم کرنا چاہتی ہے۔

پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی کے گزشتہ اجلاس میں جے یو آئی (ف) کے رہنما اور مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی سینیٹر مولانا عطا الرحمٰن نے ان دو بِلوں پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ان کی چند شقوں کو شریعت کے خلاف قرار دیا تھا اور انہیں اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کا مطالبہ کیا تھا۔یاد رہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف اور انسداد عصمت دری کے بِل سب سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سابق سینیٹر صغریٰ امام نے پرائیوٹ ممبر کے بِل کے طور پر پیش کیے تھے، جن کی دو سال قبل سینیٹ منظوری دے چکی ہے۔تاہم حکومت ان بِلوں کو 90 روز کی مقرر مدت میں قومی اسمبلی سے منظور کرانے میں ناکام رہی، جس کے بعد ا±نہیں مشترکہ اجلاس کا ایجنڈا بنایا گیا۔

متعلقہ عنوان :