چین اور پاکستان کے تعلقات کو دنیا بھر میں مثالی تصور کیا جا رہا ہے

دنیا سے چین کے مستحکم اور دوستانہ تعلقات کا فائدہ پاکستان کو بھی پہنچ سکتا ہے پاکستان سے متعلق معاملات میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کوئی اختلاف نہیں

جمعرات 31 مارچ 2016 14:44

بیجنگ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31 مارچ۔2016ء ) چینی اتحادیوں اور امریکہ کی عالمی اورعلاقائی مسائل کے بارے میں اتفاق رائے کے پاک چین تعلقات پر مثبت اثرات ظاہر ہورہے ہیں بیرونی دنیا سے چین کے مستحکم اور دوستانہ تعلقات کا فائدہ پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے، پاکستان سے متعلق معاملات میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔

ان خیالات کا اظہار انسٹی ٹیوٹ انٹرنیشنل ریلیشن کے ڈائریکٹر یانگ ژو ٹانگ نے پاک چین تعلقات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ بیرون ملک اتحاد پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں چین کیلئے بہت معاون ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو دنیا بھر میں ایک مثال کے طورپر دیکھا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

انہوں نے عالمی سطح پر بدلتے حالات میں ابھرتے ہوئے چین کی حکمت عملی پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ دو بڑی طاقتوں کے درمیان تعلقات کئی تنازعات کا حل ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صرف چین کا اتحادی نہیں ہے بلکہ وہ امریکہ کا بھی اتحادی ہے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سے متعلقہ معاملات میں بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے ،اگر چین امریکہ کے کسی اتحادی کے ساتھ کام کرتا ہے تو دونوں کے درمیان بہت کم اختلافات ہوں گے ۔ یانگ ژو ٹانگ نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کسی کے اتحادی کے ساتھ کام کرنا سرد جنگ سمجھ لیا جاتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ غیر جانبداری کی تجویز 1956ء میں ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو ، مصر کے دوسرے صدر جمال عبد الناصر ، یوگو سلاویہ کے اس وقت کے صدر جوزف بروز ٹیٹو نے پیش کی تھی جبکہ غیر ممالک کی پہلی کانفرنس ستمبر 1961ء میں ہوئی تھی جس میں 25ممالک نے شرکت کی تھی ، غیر جانبدار ی کی تحریک سرد جنگ کے دوران منظر عام پر آئی اور ابھی تک سرد جنگ کا ذہن موجود ہے جبکہ اتحادی بنانا ایک سادہ سی انسانی فطرت ہے جو دور قدیم سے چلی آرہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ غیر جانبدار ممالک کا گروپ دوسری قوموں کو سلامتی کی یقین دہانی فراہم نہیں کر سکا ، غیر جانبدار تحریک کے تمام رکن ممالک چھوٹی اور درمیانی معیشت کے حامل ہیں اوربڑی طاقتوں نے انہیں کبھی ایسے معاملات میں استعمال نہیں کیا ، اگر چین غیر جانبداری پر اصرار کرتا ہے تو وہ کس طرح خیر سگالی اور انصاف ظاہر کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہم دنیا کو یہ بتانے جارہے ہیں کہ چین مسلسل طاقت ور ہورہا ہے لیکن انہوں نے سوال کیا کیا چین آپ کی سلامتی کا کبھی دفاع کر سکے گا ۔

انہوں نے کہا کہ ایک لمحے کیلئے ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ چین کے طاقتور بننے اور ابھر کر عالمی سطح پر آنے کے بعد جو دباؤ آئے گا ہم اس کا مقابلہ کیسے کریں گے ، چین اور امریکہ اب کشیدگی کم کرنے کیلئے کوشش کررہے ہیں لیکن اس حکمت عملی پر زیادہ کام نہیں ہورہا ، اس کی بنیادی وجہ اور حقیقت یہ ہے کہ باہمی تعلقات میں تعاون کی بجائے مقابلہ جاری ہے ، تعاون محض مقابلے میں خرابی کو روکنے کیلئے ایک طریقہ کار ہے اور مقابلے کو مکمل طورپر تعاون میں تبدیل کرنا ناممکن ہے ، اس لئے میری تجویز ہے کہ ہمیں اس بات کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے میں ہیں اور چین امریکہ تعلقات کو صحت مند مقابلے کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہئے ۔

انہوں نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان گہرے مفادات کااختلاف ہے جو مسلسل بڑھ رہا ہے اس لئے اس کھیل کا کوئی حل نہیں ہے ، ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں جنگ کی طرف بڑھتے ہوئے تصادم کو کسی حد تک روک سکیں لیکن یہ بھی ناممکن ہے کہ مفادات کے تصادم کے بغیر ہم تعلقات کو جاری رکھ سکیں ، یہ اسی طرح ہے

متعلقہ عنوان :