حکومت اورڈی چوک میں احتجاج کرنے والی مذہبی تنظیموں کے درمیان مذاکرات کامیاب، 4روز ہ دھرنا ختم ، مظاہرین سامان لپیٹ کرروانہ

توہین رسالت قانون کے حوالے سے آئین کی شق295سی میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی،توہین رسالت کے مقدمے میں کسی شخص کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی،فورتھ شیڈول میں نظرثانی کے ذریعے بے گناہ افراد کانام نکالا جائے گا،نظام مصطفی کے نفاذ کیلئے علماء وزارت مذہبی امور سے تجاویز طلب،دھرنے میں شریک علماء کرام کے خلاف قائم مقدمات کی واپسی کا جائزہ لیا جائے گا،دھرنے کے دوران گرفتار شدہ افراد کو رہا کیا جائے گا، حکومت اور مذہبی تنظیموں کے قائدین مابین طے پانے والے معاہدے کے 7نکات ہ دھرنا دینے والی جماعتوں کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، قانون توڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ، آئندہ ڈی چوک میں کسی کو جلسے یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، چوہدری نثارکی پریس کانفرنس

بدھ 30 مارچ 2016 20:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔30 مارچ۔2016ء) حکومت اورڈی چوک میں دھرنا دینے والی مذہبی تنظیموں کے درمیان مذاکرات کامیاب ،7 نکاتی معاہدہ طے پاگیا ، جس کے تحت حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ توہین رسالت قانون کے حوالے سے آئین کی شق295سی میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی،توہین رسالت کے مقدمے میں کسی شخص کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی،فورتھ شیڈول میں نظرثانی کے ذریعے بے گناہ افراد کو نکالا جائے گا،نظام مصطفی کے نفاذ کیلئے علماء وزارت مذہبی امور کو تجاویز دیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا،دھرنے کے دوران علماء کرام کے خلاف قائم مقدمات کی واپسی کا جائزہ لیا جائے گا،دھرنے کے دوران گرفتار شدہ افراد کو رہا کیا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق بدھ کو حکومت کی جانب سے ڈی چوک میں دھرنا دینے والے مذہبی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو کئی مرتبہ ڈی چوک خالی کرنے کی ڈیڈ لائنیں دی گئیں جبکہ اس دوران انتظامیہ اور دھرنے کے قائدین کے درمیان مذاکرات کے کئی ادوار بھی ہوئے تاہم وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے، جس کے بعد حکومت نے مظاہرین کو ڈی چوک سے نکالنے کیلئے آپریشن کی تیاریاں مکمل کرلیں اور پولیس، ایف سی اور رینجرز نے صف بندی بھی کرلی تاہم اس دوران وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق، وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق و دیگر نے شرکت کی، جس میں مظاہرین کے دھرنے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ۔

(جاری ہے)

وزیراعظم نواز شریف نے ہدایت کی کہ اس معاملے کا فوری حل کیا جائے، جس پر مختلف تجاویز بھی سامنے آئیں تاہم وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ مظاہرین اور حکومت کے درمیان مذاکرات اور مفاہمت کیلئے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اگر انہیں ذمہ داری سونپی جائے تو وہ مسئلے کے پر امن حل کیلئے کوششیں کریں گے جس کے بعد یہ ذمہ داری خواجہ سعد رفیق کو سونپ دی گئی اور ان کی رہائش گاہ پر حکومتی نمائندوں، ثالثین اور دھرنا دینے والے قائدین کے درمیان مذاکرات کے مختلف دور ہوئے ۔

ان مذاکرات میں مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء و وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق،وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات، وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار، اویس انس نورانی، معروف تاجر حاجی رفیق احمد گیگا پردیسی ،سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری، پیر افضل قادری، آصف اشرف جلالی اور دیگر نے شرکت کی۔ مذاکرات کے دوران وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے مطالبات تسلیم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور فریقین کے درمیان ایک 7 نکاتی معاہدہ طے پایا ۔

جس کے تحت مذہبی جماعتوں کے قائدین نے احتجاجی دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا۔مذاکرات کی کامیابی میں وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات نے بھی اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان کے مذکورہ مذہبی جماعتوں کے عہدیداروں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، انہوں نے لیاقت باغ میں ممتاز قادری کی نماز جنازہ میں بھی شرکت کی تھی، اس لئے انہیں بھی مذاکراتی عمل میں شامل کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مذاکرات کے آخری مرحلے میں وفاقی وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کو بلایا گیاجنہوں نے مذہبی تنظیموں کے قائدین کو یقین دہانیاں کرائیں جس کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا تاہم دوسری جانب حکومت نے مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں مظاہرین کے خلاف آپریشن کی 100فیصد تیاریاں مکمل کر رکھی تھیں، پولیس ، ایف سی اور رینجرز نے صف بندی بھی کرلی تھی اور ایک مرتبہ دھرنے والوں کا گھیراؤ بھی کیا گیاتاہم بعد ازاں بعض وزراء اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی کوششوں سے مذاکرات کامیاب ہو گئے اور حکومت اور دھرنے دینے والوں کے خلاف معاہدہ طے پایا۔

ذرائع کے مطابق بعض مطالبات ناقابل تسلیم تھے، جنہیں حکومت نے یکسر مسترد کر دیا۔ ذرائع نے دعویٰ کیا کہ دھرنے والوں کو یہ یقین ہو چکا تھا کہ حکومت ان کے خلاف آپریشن کا مکمل ارادہ رکھتی ہے اور یہ آپریشن شروع ہو جائے گا، جس سے ان کو نقصان ہو سکتا ہے اس لئے مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کیا جائے۔ مظاہرین نے فیس سیونگ مانگی تھی اور حکومت بھی خون خرابہ نہیں چاہتی تھی اس لئے معاملے کو پر امن طریقے سے حل کرلیا گیا۔

دریں اثناء وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ضلعی انتظامیہ نے ملاقات کی تھی، جن میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل اور ڈپٹی کمشنر شامل تھے، انہوں نے وزیر داخلہ کو دھرنے والوں سے مذاکرات اور ان کے مطالبات کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان سے دھرنا دینے والے سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجاز قادری ،پیر افضل قادری اور اویس نورانی نے ملاقات بھی کی ۔

حکومت اور دھرنا دینے والی جماعتوں کے قائدین کے درمیان 7 نکات پر مشتمل معاہدے پر اتفاق کرلیا گیا۔جس کے تحت حکومت نے یقین دہانی کرائی کہ توہین رسالت قانون کے حوالے سے آئین کی شق295سی میں کوئی ترمیم نہیں ہو گی،توہین رسالت کے مقدمے میں کسی شخص کے ساتھ رعایت نہیں کی جائے گی،فورتھ شیڈول میں نظرثانی کے ذریعے بے گناہ افراد کو نکالا جائے گا،نظام مصطفی کے نفاذ کیلئے علماء وزارت مذہبی امور کو تجاویز دیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جائے گا،دھرنے کے دوران علماء کرام کے خلاف قائم مقدمات کی واپسی کا جائزہ لیا جائے گا،دھرنے کے دوران گرفتار شدہ افراد کو رہا کیا جائے گا۔

معاہدے پر اتفاق ہونے کے بعد مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں نے ڈی چوک میں آ کر مظاہرین کو معاملات طے پانے کی خوشخبری سنائی اور دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا اور مظاہرین اپنا سامان لے کر چلے گئے جبکہ بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ دھرنا دینے والی جماعتوں کے ساتھ کوئی تحریری معاہدہ نہیں ہوا، قانون توڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہو گی ، آئندہ ڈی چوک میں کسی کو جلسے یا دھرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، حکومتی نمائندوں میں سے کسی کے پاس تحریری معاہدوں کا کوئی مینڈیٹ نہیں تھا۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز مذہبی جماعتوں کے کارکن ممتاز قادری کی رسم چہلم میں شرکت کے بعد اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہو گئے تھے اور انہوں نے بلیو ایریا اور دیگر مقامات پر میٹرو بس سروس کے اسٹیشنز پر جلاؤ گھیراؤ کیا جبکہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی کھڑی گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور دیگر اشیاء کو بھی نقصان پہنچایا، اس دوران پولیس اور رینجرز اہلکاروں پر بھی تشدد کیا گیا، جس کے بعد مظاہرین ڈی چوک میں داخل ہو گئے اور انہوں نے وہاں دھرنا دے دیا جبکہ کنٹینر وں کو بھی آگ لگائی، اس دوران جڑواں شہروں میں میٹرو بس سروس مکمل طور پر معطل ہو گئی جبکہ کئی علاقوں میں موبائل فون سروس بھی بند رہی، ریڈ زون سمیت کئی علاقے کنٹینر رکھ کر بند کر دیئے گئے جس سے شہریوں اور دفاتر جانے والے ملازمین کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم بدھ کو مذاکرات کی کامیابی کے بعد موبائل فون سروس فوری طور پر بحال کر دی گئی جبکہ سڑکیں بھی جزوی طور پر کھول دی گئیں۔