سینیٹ فنکشنل کمیٹی مسائل پسماندہ علاقہ جات کااجلاس

جنگلات کی بے دریگ کٹائی،نیوکلیئر ٹیسٹ،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات ہیں،موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادیاں اور شہر اجڑ جائینگے،قائمہ کمیٹی ماحولیات کے دشمن کی نشاندہی کر کے پسماندہ علاقہ جات کی ترقی ،جنگلات کی کٹائی روکنا،نئے جنگلات لگانا،ماحولیات کیخلاف صنعتوں کو کنٹرو ل کرنا،پسماندہ علاقوں کو قدرتی گیس کی جلد فراہمی،سیلاب روکنے کے منصوبوں میں پسماندہ علاقوں پر زیاد ہ توجہ ،واٹر شیڈ اور پانی کے ذخائر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے،اجلاس سے خطاب

منگل 29 مارچ 2016 21:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔29 مارچ۔2016ء ) سینیٹ فنکشنل کمیٹی مسائل پسماندہ علاقہ جات کے چیئرمین سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کمیٹی اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماحولیات کے دشمن کی نشاندہی کر کے پسماندہ علاقہ جات کی ترقی ،جنگلات کی کٹائی روکنا،نئے جنگلات لگانا،ماحولیات کے خلاف صنعتوں کو کنٹرو ل کرنا،پسماندہ علاقوں کو قدرتی گیس کی جلد فراہمی،سیلاب روکنے کے منصوبوں میں پسماندہ علاقوں پر زیاد ہ توجہ ،واٹر شیڈ اور پانی کے ذخائر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے،موسمیاتی تبدیلی کی روک تھام کے حوالے سے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آبادیاں اور شہر اجڑ جائینگے،موسمیاتی تبدیلیاں خطرناک ہیں آگاہی کیلئے نصاب میں ماحولیات کو شامل کیا جائے،فلمیں،ڈرامے بنائے جائیں ،موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھ کر نئے بیج،پودے اور درخت ایجاد کئے جائیں،توانائی کے شعبے میں ماحولیات کو بھی مدنظر رکھا جائے اور تجویز دی کہ ماحولیاتی و موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے تمام پارلیمٹیرینز پر مشتمل ملکی صوبائی اور اضلاعی سیمینارز منعقد کرائے جائیں،موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں اضافہ ہو رہا ہے خدانخواستہ گلیشیئر پگھلے تو طوفان نوح بھول جائینگے،زیر زمین پانی میں شدید کمی ہو رہی ہے،جنگلات کی بے دریگ کٹائی،نیوکلیئر ٹیسٹ،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجوہات ہیں۔

(جاری ہے)

کمیٹی کا اجلاس گزشتہ روز پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں سینیٹرز میر کبیر احمد محمد شاہی،گیان چند،خالدہ پروین،ثمینہ عابدکے علاوہ سیکرٹری وزارت ابو احمد عاکف،چیف میٹ محمد ریاض،آئی جی جنگلات سید محمد نصیر،این ڈی ایم اے کے بریگیڈیئر کے علاوہ اعلی افسران نے شرکت کی۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ وفاقی وزارتیں ہر معاملے کو اٹھارویں ترمیم کہ کر جان چھڑاتی ہیں لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد وزارتوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کا مرکز کو ذیادہ فائدہ ہو اہے آٹھ نئی وزارتیں قائم کر دی گئی ہیں مرکز کے پاس ختم ہونے والی وزارتوں کا متبادل نام رکھ لیا گیا ہے۔سینیٹر خالدہ پروین نے کہا ہے کہ ساہیوال کے زرعی علاقے میں کوئلے کا بجلی منصوبہ شروع کیا گیا ہے ا ور پچھلی دفعہ آنے والے سیلابی دورانیے میں جنوبی پنجاب کے متاثرین کی امداد نہیں دی گئی۔

دنیا کوئلے کے کارخانے بند کر رہی ہے ا ور ساہیوال میں ماحول دشمن منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔سینیٹر ثمینہ عابد نے کہا کہ چترال میں آنے والے سیلاب کے متاثرین اب بھی وفاق کے امدا دکے منتظر ہیں اور کہا کہ واٹر شیڈ نظام بحال کیا جائے ۔جنگلات کی کٹائی روکی جائے اور ماحولیات کو پرائمری نصاب میں شامل کیا جائے۔سینیٹر گیان چند نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں سیلابی تباہی روکنے کے اقدامات کئے جائیں۔

چیئرمین کمیٹی عثمان کاکڑ نے کہا کہ دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں امریکہ یورپ اور امیر ملکوں کی وجہ سے پیدا ہوئی۔پاکستان بین الا اقوامی طور پر ماحولیات کیلئے قائم کئے گئے10ہزار ارب فنڈ میں سے کم از کم1000ارب حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کرے اور کہا کہ این ڈی ایم اے کی طرف سے کئے جانے والے اقدامات مزید بہتر بنائے جائیں۔این ڈی ایم اے کے بریگیڈیئر اشتیاق نے کہا کہ اب تک پاکستان میں سیلابوں سے 17بلین ڈالر سے زائد کے نقصانات ہو چکے ہیں۔

دریائے سندھ اور کوہ سلیمان کے علاقے ذیادہ متاثر ہوئے۔اور کہا کہ ڈی جی خان ڈویژن ،چترال ،دیر ،سوات ،کوہستان ہر سال فلش پوائنٹ فلڈ ایریا ہی رہینگے۔ اور یہاں موسمیاتی تبدیلیاں بھی ا ثر انداز ہونگی۔چیف میٹیریلوجیکل نے انکشاف کیا کہ پہلا موسمی ریڈار1976 اور دوسرا1997میں حاصل کیا گیا۔دس سال کی گارنٹی کے بعد ریڈاروں کی کارکردگی کمزور ہے۔

ورلڈ بنک سے نئے ریڈار لینے کا معاملہ چل رہا ہے ڈی جی پی ایم ڈی نے کمیٹی سے درخواست کی کہ پلاننگ ڈویژن میں معاملہ زیر التو ہے کمیٹی معاملہ حل کرنے کیلئے مدد کرے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان کے پلاننگ کمیشن میں معاملہ کمیشن کا ہوتا ہے اس لئے زیر التوا ء ہے۔ورلڈ بنک میں کوئی کمیشن نہیں دیا جاتا ۔چیئرمین کمیٹی نے تجویز کیا کہ پورے ملک کو سیٹلائیٹ نظام پر کیا جائے اور ہدایت دی کہ ریڈار خریدنے کا معاملہ جلد سے جلد حل کیا جائے اور کہا کہ ریڈار دریائے کابل پر نوشہرہ کے مقام پر،سکھر میں اور پسماندہ علاقوں میں ذیادہ تعداد میں لگائے جائیں۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ کوئٹہ میں زیر زمین پانی200فٹ سے2000فٹ نیچے چلا گیا ہے جس کی وجہ سے کوئٹہ کے گردونواح میں زمین دھنس رہی ہے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ سیلاب اور زلزلہ کے متاثرین کی امداد کیلئے فاٹا میں ویئر ہاؤس موجود نہیں۔ فاٹا کیلئے ویئر ہاؤس موجود ہونا چاہئے۔بلوچستان میں خضدار ،قلات میں ویئر ہاؤسز ہونے چاہئیں۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ این ڈی ایم کی طرف سے اعلان کے مطابق امداد نہیں دی جاتی اور بعض محکمے ناگہانی آفات میں پیسہ کماتے ہیں خیرات میں سے بھی کمیشن کا ہمارے اداروں اور حکومتوں پر الزام ہے ۔

میر کبیر نے کہا کہ آدھی امدا دہڑپ کر لی جاتی ہے۔ منصوبے سائنسی انداز میں بنائے جانے چاہئیں دنیا نے ا عتبار کرنا چھوڑ دیا ہے۔آئی جی جنگلات نے کہا کہ چین اور بھارت کے علاوہ دنیا کے بڑے ماہرین سے مشاور ت کی گئی ہے ان کے تجربات اور مشاہدات کے حوالے سے وفاقی حکومت اور صوبوں کو تجویز کیا گیا ہے کہ سیلاب کو نقصان کی بجائے فائدے کے طور پر دیکھتے ہوئے دوسرے ممالک کی طرح زیر زمین ذخائر بڑھائے جائیں۔

جنگلاتی علاقہ میں اضافہ کیا جائے ۔واٹر شیڈ بنائے جائیں اور کہا کہ امید ہے کہ اگر تجاویز سی سی آئی سے منظور ہو گئی تو یہ گیم چینجر ہونگی۔اور آگاہ کیا کہ جہاں سے سیلاب گزرتا ہے زمینیں زرخیز ہوتی ہیں۔تجاویز پر عمل کیا گیا تو کالا باغ ڈیم سے کئی گنا بڑے زیر زمین ذخائر بننے سے زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو گی اور ماحولیاتی فائدے بھی حاصل ہونگے اور کہا کہ تجویزدی گئی ہے کہ ہر صوبہ ویٹ لینڈ مینیجمنٹ اتھارٹی قائم کرے۔

چیئرمین کمیٹی عثمان کاکڑ نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں منفی ڈگری سے نیچے موسمی اضلاع میں 3سے4ہزار روپے فٹ مہنگی ترین لکڑی جلانے کیلئے استعمال کی جار ہی ہے۔پہاڑوں کے نزدیک فلڈ پروٹیکشن کی بجائے ترقی یافتہ شہروں کو بچانے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔وزیر ،وزیر اعظم ، پارلیمنٹرینز کے صنعتی گروپ ماحول دشمن منصوبے بند کریں۔اور کہا کہ پسمانہ اضلاع میں سیلاب روکنے کے منصوبوں کو پہلے فیز میں لایا جائے اور قومی خدمت کے طور پر خردبرد ختم کی جائے۔