مسلمان خاتون کے انٹرویو کرنے پر میانماز کی سیاستدان کا اعتراض

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین ہفتہ 26 مارچ 2016 12:01

میانمار(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔26 مارچ 2016ء): 1991ء میں امن کے لیے نوبل انعام یافتہ میانمار کی خاتون سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو اپنے ملک میں جمہوریت کے قیام کیلئے بہت قربانیاں دینے پر دنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔یہی وجہ تھی کہ ڈکٹیٹر کے خلاف آواز بلند کرنے پر انہیں 15 سال تک نظر بندی کا بھی سامنا رہا، لیکن حال ہی میں دنیا بھر کے سامنے ان کا ایک اور پہلو ابھر کر سامنے آیا ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق سیاسی رہنما آنگ سان سوچی نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دینے کے بعد اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ انہیں اس بات سے پہلے کیوں آگاہ نہیں کیا گیا تھا کہ ان کا انٹرویو ایک مسلمان خاتون کریں گی؟ آن سانگ سوچی کے نقطہ اعتراض کی وجہ برطانوی نشریاتی ادارے کی خاتون صحافی مشال حسین کی جانب سے انٹرویو کے دوران سخت سوالات کی بوچھاڑ تھی۔

(جاری ہے)

سوالات کے جوابات میں جب سیاسی رہنما کو کو کچھ نہ سجھا تو انہوں نے کہا کہ مجھے کسی نے بتایا کیوں نہیں کہ میرا کا انٹرویو ایک مسلمان خاتون لے گی؟ انٹر ویو میں شال حسین نےسوچی سے میانمار میں مسلمانوں کے قتل عام اور اسلام مخالف جذبات کی مذمت کرنے سے متعلق سوال کی، جس کے جواب میں آنگ سان سوچی نے کہا کہ میرے خیال میں میانمار میں رہنے والے بدھ مذہب کے پیروکاروں نے بھی بڑی تعداد میں ہجرت کی۔ یہ سب کچھ آمرانہ حکومت کے دکھوں کا نتیجہ ہے۔