گوانتانامو بے کے حراستی مرکز سے رہا ہونے والے قیدیوں نے امریکی شہریوں کو ہلاک کیا ‘ بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہوئے حملے میں سابق قیدی ملوث تھا: پینٹاگان

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 25 مارچ 2016 12:11

گوانتانامو بے کے حراستی مرکز سے رہا ہونے والے قیدیوں نے امریکی شہریوں ..

واشنگٹن(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔25مارچ۔2016ء) گوانتانامو بے کے حراستی مرکز سے رہا ہونے والے قیدیوں نے امریکی شہریوں کو ہلاک کیا ‘ پینٹاگان کے خصوصی نمائندے پال لیوس نے اس بارے میں کوئی تفصیل بیان کرنے سے گریز کیا اور نا ہی یہ بتایا کہ آیا یہ واقعات صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں ہوئے یا صدر براک اوباما کی انتظامیہ کے دور میں پیش آئے۔

لیوس نے ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امورخارجہ کو بتایا کہ میں جو کچھ آپ کو بتا سکتا ہوں بدقسمتی سے وہ امریکی شہری ہیں جو ان قیدیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔خبررساں اداروں نے ان عہدیداروں کی شناخت ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ اس واقعہ میں ایک افغان قیدی ملوث تھا جسے اس وقت رہا کیا گیا جب بش صدر تھے۔

(جاری ہے)

ایسے الزامات بھی سامنے آئے کہ ایک سابق قیدی 2012 میں لیبیا کے شہر بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر ہوئے حملے میں ملوث تھا۔

یہ انکشاف وزارت دفاع اور وزارت خارجہ کے عہدیداروں کی طرف سے قانون سازوں کو دی گئی ایک بریفنگ کے دوران سامنے آیا جس میں انہوں نے بتایا کہ کس طرح یہ حراستی مرکز داعش کے لیے ایک طاقتور پروپیگنڈ ے کا ذریعے بن گیا ہے۔لیوس نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک اور ہمارے اتحادی ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ گٹ مو (گوانتانامو) سے کتنا نقصان ہو رہا ہے۔گوانتانومو بے کو بند کرنے سے ہم باقی دنیا کے تحفظات دور کر سکتے ہیں۔

تاہم کانگرس کے کئی ریپبلکنز اور کچھ ڈیموکریٹک ارکان نے گوانتانامو کے حراستی مرکز کو بند کرنے کی مخالفت کی ہے۔کیلی فورنیا کی ایوان نمائندگان کی ریپبلکن رکن ڈانا روہرابیکر نے کہا کہ یورپی اتحادی منگل کو برسلز میں ہونے والے حملوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت اور سیکڑوں افراد کے زخمی ہونے کے بعد اس حراستی مرکز کے بارے میں اپنی منفی سوچ تبدیل کر سکتے ہیں۔

جبکہ ایوان نمائندگان کے کئی دیگر ارکان نے بھی اسی قسم کی رائے کا اظہار کیا۔گوانتانامو بے سے 85 فیصد قیدیوں کو دوسرے ملکوں میں منتقل کر دیا گیا ہے جو 2002 سے یہاں قید تھے۔انٹلیجنس اطلاعات کے مطابق گوانتانامو بے سے صدر اوباما کی انتظامیہ کے دور میں دوسرے ملکوں میں منتقل کیے گئے قیدیوں میں سے صرف پانچ فیصد دوبارہ دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث پائے گئے۔تاہم کچھ قانون سازوں کو اس بات کا خدشہ ہے کہ وہ ملک جہاں ان قیدیوں کو متنقل کیا گیا ہے جیسا کہ یوراگوائے اور گھانا، وہ ان افراد کی مناسب طریقے سے نگرانی کے لیے تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ عنوان :