وائس چانسلرز کی تعیناتیاں آئینی معاملہ ،نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ‘ہائیکورٹ کا ایچ ای سی کے مبہم جواب پر برہمی کا اظہار

ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو سرچ کمیٹیاں قائم کرنے اور گائیڈ لائن دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں اس حوالے سے واضح جواب جمع کرایا جائے‘عدالت

جمعرات 24 مارچ 2016 22:30

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔24 مارچ۔2016ء )لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب کی چار یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تقرریوں کیخلاف کیس کی سماعت چار اپریل تک ملتوی کردی جبکہ عدالت نے غیر واضح جواب داخل کرانے پر ڈائریکٹر جنرل ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر برہمی کااظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو سب سے زیادہ مسائل کا سامنا ہے مگر اس سے متعلق کوئی پالیسی ہی نہیں بنائی گئی ۔

لاہو رہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے کیس کی سماعت کی ۔پنجاب یونیورسٹی کے لیگل ایڈوائزر نے دوران سماعت موقف اپنایا کہ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کو پبلک سیکٹر یونیورسٹی ترمیمی ایکٹ کے سیکشن 14کے تحت میرٹ اور قوانین کی بنیاد پر تعیناتی دی گئی ہے ۔

(جاری ہے)

درخواست گزاروں کے وکیل نے کہا کہ قوانین کے تحت وائس چانسلرز کی تعیناتی سے قبل ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے مشاورت ضروری ہے۔

معیار طے کرنا ،،یونیورسٹیوں کو گائیڈ لائن دینا اور وائس چانسلرز کی تعیناتیوں کیلئے سرچ کمیٹیاں قائم کرنا ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا اختیار ہے۔سماعت کے دوران ہائیر ایجوکیشن کمیشن لاہور کے ڈائریکٹر جنرل نذیر حسین نے فاضل عدالت کے رو برو جواب داخل کراتے ہوئے کہا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن یونیورسٹیوں کے معاملات کو ریگولیٹ کرتا ہے،پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے معاملات کو صوبائی حکومتیں قوانین کے تحت سرانجام دیتی ہیں۔

فاضل عدالت نے غیر واضح جواب داخل کرانے پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن پر سخت برہمی کا اظہار کہا کہ اس طرح کے جواب سے کام نہیں چلے گا۔وائس چانسلرز کی تعیناتیاں آئینی معاملہ ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو سرچ کمیٹیاں قائم کرنے اور گائیڈ لائن دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں اس حوالے سے واضح جواب جمع کرایا جائے ۔عدالت نے سماعت 4اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے جواب طلب کر لیا ۔