حقوق نسواں ایکٹ غیر اسلامی یا غیر آئینی نہیں، ماہرین قانون پنجاب یونیورسٹی لاء کالج

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 24 مارچ 2016 18:38

حقوق نسواں ایکٹ غیر اسلامی یا غیر آئینی نہیں، ماہرین قانون پنجاب یونیورسٹی ..

لاہور(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24مارچ۔2016ء) :پنجاب یونیورسٹی لاء کے زیر اہتمام منعقدہ مباحثے میں مقررین نے کہا کہ حقوق نسواں ایکٹ غیر اسلامی اور غیر قانونی نہیں کیونکہ اس میں موجود شقیں قرآن و سنت اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے مطابقت رکھتی ہیں اور اسلام کی اصل روح اور نبی پاک کی تعلیمات کی ضرور پیروی کی جانی چاہئے۔ تقریب کی صدارت کالج پرنسپل ڈاکٹر شازیہ قریشی نے کی جس میں کالج کے سینئر اساتذہ نے شرکت کی۔

مقررین نے کہا کہ مسائل کا شکار خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے یہ مثبت حکومتی اقدام ہے ۔انہوں نے کہا کہ حقوق نسواں ایکٹ مخصوص مگر وسیع تر گنجائش پر مبنی ہے اور اسے پوری طاقت سے لاگو ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ فریقین کے مسائل کو مصالحت کی جانب لے جانے کے لئے بنایا گیا ہے نہ کہ طلاق کی شرح میں اضافے کے لئے ۔

(جاری ہے)

مقررین نے کہا کہ اس ایکٹ کے تحت صرف بیوی ہی متاثرہ فریق نہیں ہے بلکہ خواتین کی نمائندگی کرتی ہے۔

اپنی سفارشات پیش کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ آرٹیکل (e)2میں موجود ”زیر کفالت بچہ“ جس کا مطلب ایسا لڑکا ہے، جو بارہ سال سے کم عمر ہو اور اپنایا گیا ہو ، سوتیلا اور لے پالک بچہ شامل ہیں ، میں فیمیل یعنی بچیوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل2(r)کے مطابق ”نفسیاتی بدسلوکی یا تشدد کا بھی خاتمہ کیا جا نا چاہیے۔

“ انہوں نے کہا کہ ہر کیس کا نفسیاتی پہلو دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور اسے ثابت کرنا اس لحاظ سے مشکل ہے کہ نفسیاتی تشدد کو جانچنے کے لئے کوئی پیمانہ مقرر نہیں یہاں تک کہ گھریلو، جنسی اور معاشی استحصال بھی نفسیاتی پہلوؤں کے اعتبار سے شمار کئے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ ایکٹ بننے کے بعد سے ہی دیوانی اور فوجداری دونوں حدود کا احاطہ کرتا ہے ، اس ایکٹ کے تحت ان حدود کی وضاحت ضروری ہے ۔

متعلقہ عنوان :