گرینڈ حیات ایجنسی ہوٹل پلاٹ الاٹمنٹ کرپشن سکینڈل:

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کو تحقیقات سے روک دیا

بدھ 23 مارچ 2016 15:07

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔23 مارچ۔2016ء) گرینڈ حیات ایجنسی ہوٹل پلاٹ الاٹمنٹ میں 20 ارب روپے کی کرپشن کی تحقیقات سے ایف آئی اے کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے روک دیا ہے ۔ گرینڈ حیات ایجنسی ہوٹل کا پلاٹ کنونشن سنٹر کے قریب سی ڈی اے حکام نے انتہائی سستے ریٹ پر الاٹ کردیا تھا جبکہ اس پلاٹ کی مارکیٹ قیمت 20ارب روپے بتائی جاتی ہے اس کیس کی تحقیقات پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے حکم پر نیب کے حوالے کی گئی تھیں لیکن نیب نے جب خاموشی اختیار کرلی تو پھر ایف آئی اے اسلام آباد نے اس کی تحقیقات کا آغاز کیا ۔

بعد ازاں وفاقی حکومت کی ایک طاقتور شخصیت کے حکم پر تحقیقات ایف آئی اے لاہور کے سپرد کردی گئیں ۔ اس پر متاثرہ فریق نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے استدعا کی گئی کہ ایف آئی اے لاہور کے ذریعے تحقیقات کروانا بدنیتی پر مبنی ہے چنانچہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اس حوالے سے ایف آئی اے کو تحقیقات کرنے سے روک دیا اس معاملے کی انکوائری ایف آئی اے لاہور کے ڈائریکٹر عثمان انور کی سربراہی میں پانچ رکنی ٹیم کررہی تھی ۔

(جاری ہے)

ٹیم کے دیگر ممبران میں جاوید حسین شاہ ایڈیشنل ڈائریکٹر ، محمد جمیل اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، جاوید سلطان اسسٹنٹ ڈائریکٹر اور انسپکٹر نیئر ترمذی شامل ہیں ۔ مذکورہ تحقیقاتی ٹیم نے پیر کو سی ڈی اے حکام سے پوچھ گچھ کی تھی اور اس حوالے سے سی ڈی اے پلاننگ ونگ اور اسٹیٹ مینجمنٹ س ریکارڈ بھی اکٹھا کیا گیا تھا اس سکینڈل کی نشاندہی آڈٹ رپورٹ میں کی گئی تھی اور بعد ازاں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیب کو اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا لیکن نیب نے پراسرار خاموشی اختیار کرلی تھی ۔

آڈٹ حکام نے اپنے اعتراضات میں لکھا تھا کہ اس پلاٹ کی قیمت مارکیٹ سے بہت کم ہے اور قواعد وضوابط کو نظر انداز کرکے اس کی الاٹمنٹ کی گئی اور سول ایوی ایشن حکام کی طرف سے بھی اعتراض اٹھایا گیا کہ سی ڈی اے نے ہماری اجازت کے بغیر اس کی پانچ مزید منزلوں کی اجازت دیدی اور ہمارے ائر ٹریفک کے مسائل پیدا کرسکتا ہے مزید برآں حساس اداروں کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا کہ سفارتخانوں کے قریب اتنی بڑی عمارت کھڑا کرنا سکیورٹی رسک ہے ۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سی ڈی اے کو ہدایت کی تھی کہ اس عمارت میں جن لوگوں کو پلاٹ الاٹ کئے گئے ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی پی اے سی کو دیئے جائیں لیکن سی ڈی اے حکام نے خاموشی اختیار کئے رکھی ۔ علاوہ ازیں سی ڈی اے حکام نے اس پلاٹ کی صرف ایک قسط لیکر حق ملکیت دے دیا تھا جو کہ غیر قاننی ہے اور اس کے پلاٹ کے عوض قرضے لے لئے ۔ حالانکہ تمام اقساط کی ادائیگی کے بعد یہ حق ملکیت دے سکتے تھے سی ڈی اے نے ایک سال میں مکمل ادائیگی کی بجائے پارٹی کو تین سال دے دیئے کہ اس دوران باقی رقم ادا کی جائے اس کیس میں حیران کن ٹرن اس وقت آیا جس اسلام آباد میں ہونیوالی کرپشن کی اس واردات کی تحقیقات ایف آئی اے سے لاہور کے سپرد کی گئیں

متعلقہ عنوان :