تیزی سے بڑھتی ہوئی آباد ی کی وجہ سے پانی کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے،عا بد شیر علی

پانی کی فی کس دستیابی میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ملک کی معاشی ترقی ، ماحولیاتی حفاظت ، فوڈسکیورٹی کا دارومدار پانی کی دستیابی پرمنحصر ہے وزیر مملکت پانی و بجلی کا پانی کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب

منگل 22 مارچ 2016 21:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 مارچ۔2016ء ) ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آباد ی کی وجہ سے پانی کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور پانی کی فی کس دستیابی میں بتدریج کمی واقع ہورہی ہے ملک کی معاشی ترقی ، ماحولیاتی حفاظت ، فوڈسکیورٹی کا دارومدار پانی کی دستیابی پرمنحصر ہے،ان خیالات کا اظہار وزیر مملکت پانی و بجلی عا بد شیر علی کا پانی کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب میں کیا عابد شیر علی کا کہنا تھا کہ جب پاک سلطنت کا قیام وجود میں آیا تو اس وقت پانی 5,260 کیوبک میٹر فی کس موجود تھا۔

جو سال 2016 تک کم ہو کر 1,000 کیوبک میٹر فی کس تک پہنچ گیا ہے اور اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ کمی سال 2025 تک809 کیوبک میٹر فی کس تک پہنچ جائے گی جو ہم سب کے لئے تشویش کن ہے کیونکہ اس بات کا اندیشہ ہے کہ پاکستان پانی کی قلت کا شکار ہو جائے گا انہوں نے کہا کہ ہر سال کوٹری کے زیریں جانب تقریباً 30ملین ایکڑ فٹ پانی جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

دنیا بھر میں پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت 40فیصد ہے ۔

امریکہ میں دریائے کالے ریڈوپر پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت 497فیصد ہے۔ مصر میں دریائے نیل پر پانی ذخیرہ کرنے کی اوسط صلاحیت 281فیصد ہے ۔ پاکستان میں دریائی پانی کا سالانہ اوسط بہاؤ 142ملین ایکڑ فٹ ہے۔جبکہ ہم اس کا صرف 10فیصد ذخیرہ کرتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے بر عکس ہم پاکستان میں شاہانہ طریقے سے بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔پانی کا سب سے زیادہ حصہ غیر مناسب آبپاشی کے نظام کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے وفاقی وزیر مملکت پانی وبجلی کا کہنا تھا کہ کسان آبپاشی کے جدید ذرائع اور تکنیک سے نا واقف ہیں۔

اس سلسلے میں ماضی کی حکومتوں نے کسانوں کی آگاہی اور جدید طریقوں میں معاونت نہیں کی۔ جس سے نہ تو پانی کے ضیاع کو روکا جا سکا اور نہ ہی جدید آبپاشی نظام کے ثمرات سے استفادہ کیا جا سکاواپڈا کے قیام کا مقصد ملک میں پانی کے ذخائر کی تعمیر کرنا ہے۔ قیام سے لے کر اب تک منگلا ڈیم ، تربیلا ڈیم، پانچ بیراج ،آٹھ رابطہ نہریں بنائی گئی تاکہ پاکستان کی غذائی اجناس کی پیداوار کے لئے پانی دستیاب عمل ہو۔

واپڈا نے حال ہی میں میرانی ڈیم ، سبک زائی ڈیم، ست پارہ ڈیم، گومل زام ڈیم اور منگلا کی توسیع جیسے پراجیکٹس مکمل کیے ہیں۔ موجودہ حکومت نے پانی کی کمی کے خطرہ کو بھانپتے ہوئے واپڈا کو ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ اس سلسلے میں دیا مربھاشا ڈیم کی زمین کی خریداری کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔ جس کا تعمیراتی کام بہت جلد شروع کیا جائے گا۔

کرم تنگی ڈیم پر کام ہو چکا ہے۔ منڈا ڈیم کے ڈیزائن پر کام مکمل ہو چکا ہے۔ اور دیگر مختلف چھوٹے ڈیم آبپاشی کی غرض سے چاروں صوبوں میں تعمیر کیے جا رہے ہیں نئے پانی کے ذخیرے نہ صرف ملک میں پانی کی ضروریات اور زرعی ترقی کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس سے عوام کے لیے روزگار کے ذرائع بھی پیدا ہوتے ہیں۔ گومل زام ڈیم کی جنوبی وزیرستان میں تعمیر اور کرم تنگی ڈیم کی شمالی وزیرستان میں تعمیر سے نہ صرف ہزاروں ایکڑ زمین قابل کاشت بنائی جائے گی بلکہ اس سے ذریعہ معاش کے حصول کے ذرئع پیدا ہوں گے جس سے انتہا پرستی اور دہشت گردی کے خاتمہ میں معاونت ملے گی۔

موجودہ حکومت نے درج ذیل ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے۔پانی کے نئے ذخائر کی تعمیر،جدید آبپاشی کے نظام کے لیے کسانوں کی معاونت جس میں ڈرپ ایریگیشن اور سپرنکلر ایریگیشن شامل ہیں،صاف پینے کے پانی کی دستیابی پن بجلی کی پیداوار بڑھانا اورواپڈا کی کوششوں میں سیلاب کے پانی کو ضائع ہونے سے بچا کر زرعی استعمال میں لانا شامل ہے۔ جس سے خشک سالی اور سیلابی تقصانات سے بچا جا سکے گا۔

متعلقہ عنوان :