سیلفی بخار، مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی میں‌رکاوٹیں‌حائل کرنے لگا

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 18 مارچ 2016 12:46

سیلفی بخار، مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی میں‌رکاوٹیں‌حائل کرنے لگا

جدہ (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔18مارچ 2016ء) : موبائل صارفین بالخصوص نوجوان صارفین اسمارٹ فون رکھنے ہی کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اس کی ایک وجہ تو اسمارٹ فون پر انٹر نیٹ کے انتہائی آسان استعمال اور دوست احباب سے بآسانی روابط برقرار رکھنا ہے لیکن وہیں ایک وجہ سیلفی بخار بھی ہے جو قریباً ہر نوجوان میں پایا جاتا ہے۔ نوجوان کہیں بھی ہوں سیلفی لینا ہرگز نہیں بھولتے بلکہ کسی بھی جگہ یا موقع پر سیلفی لینا ایک اہم فریضہ سمجھا جانے لگا ہے۔

سیلفی بخار کی وجہ سے متعدد افراد نے خوفناک اور منفرد سیلفیاں لینے کےشوق میں اپنی جانیں بھی گنوائی ہیں۔ تاہم حال ہی میں ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں کہا گیا کہ سیلفی بخار مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے مناسک حج و عمرہ کی ادائیگی میں رکاوٹیں حائل کرنا شروع کر دی ہیں جبکہ اس سے مسلمانوں کے مذہبی مقامات کا تقدس بھی پامال ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

اس کا اندازہ حج اور عمرے کے دوران مسجد الحرام میں عازمین کی اسمارٹ فون پر سیلفیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب مذہبی مقامات بالخصوص مسجد الحرام اور کعبۃ اللہ کے طواف کے دوران تصاویر بنانے کو نامناسب اور معیوب گردانا جاتا تھا لیکن اب ایسا ہرگز نہیں ہے۔دنیا بھر سے مسلمان حج پر جاتے ہیں تو ان میں سے بعض عازمین حجر اسود کو بوسہ دینے سمیت سعی اور طواف کرتے ہوئے سیلفیاں بنانا بھی مناسک حج یا عمرہ ہی کا ایک رکن سمجھتے ہیں۔

مسجد الحرام کے احاطے میں سیلفیاں بنانے کا رجحان اب ایک وبا کی شکل اختیار کرچکا ہے،جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور کعبۃ اللہ کا تقدس مجروح ہورہا ہے۔حج اور عمرے کے دوران زائرین کی ایک بڑی تعداد طواف کعبہ کرتے ہوئے سیلفیاں بناتی نظر آتی ہے جس سے طواف کرنے والوں کے روانی سے گزر میں رکاوٹ آتی ہے۔بہت سے عازمین طواف کے دوران ویڈیو کال کرتے یا ویڈیوز بناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔

عازمین کے اس فعل سے دوسری عازمین حج و عمرہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔پاکستان سے عمرہ کے لیے حجاز مقدس جانے والی ایک خاتون فاطمہ شریف نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”سیلفی کے جنون سے طواف کے دوران لوگوں کی معمول کی روانی متاثر ہوتی ہے،اس سے نہ صرف عمر رسیدہ افراد کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ تمام عبادت گزار ہی متاثر ہوتے ہیں“۔

اسی سے متعلق ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ”ہم حج پر اپنی خودی کو قربان کرنے کےلیے جاتے ہیں۔ہمیں وہاں اپنے نفس اور انا کو قربان کرنا چاہیے اور ایک حد سے زیادہ سیلفیاں بنانے کا شوق دراصل نرگسیت کا مظہر ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فرد کس حد تک خودپسندی کا شکار ہے اور وہ اپنی انا کے خول سے باہر نکلنے کو تیار ہی نہیں“۔ جبکہ ایک عالم کے مطابق مناسک حج کی ادائیگی کے دوران صرف اللہ ہی سے لُو لگی رہنی چاہیے اور اس وقت کہاں اس طرح کی فضول باتوں کا خیال آتا ہے۔

پھر سیلفیاں بنانے والوں کو یہ بھی بات یاد رکھنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی جب مطاف یا سعی کے دوران تصویر بنانے کے لیے رکتا ہے تو وہ دراصل حجاج یا عازمین عمرہ کے ازدحام میں حائل ہوجاتا ہے اور اس طرح بھگدڑ مچ جانے سے خدا نخواستہ جانی نقصان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران حجاج کے آزادانہ بہاؤ میں رکاوٹ کی وجہ سے ہی بھگدڑ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔

سیلفیوں کے شوقین افراد کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئیے کہ ان کے اس فعل سے کسی دوسرے کے متاثر ہونے کا خدشہ تو نہیں ، اگر ایسا ہے تو سیلفی کا جنون رکھنے والے افراد کو اس بات سے محتاط رہنا چاہئیے۔ علاوہ ازیں اس بات سے بالاتر کہ دوران حج و عمرہ موبائل فون کا استعمال درست ہے یا نہیں ، عازمین کو چاہئیے کہ وہ اپنے سمیت دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کریں، اور سب سے حسن سلوک سے پیش آئیں کیونکہ اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے۔

متعلقہ عنوان :