سینیٹ کی قائمہ کمیٹی قومی صحت کے اجلاس میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی جانب سے جعلی ادویات کی رجسٹریشن کا انکشاف

ڈی آر اے پی کی منظورشدہ 10 جعلی ادویات کے ثبوت موجود ہیں ، کمیٹی چاہے تو پیش کرنے کو تیار ہوں، سینیٹر کلثوم پروین کا چیلنج اگر ہم ایف ڈی اے کا معیار رکھیں تو ساری کمپنیاں بند ہو جائیں گی ، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں اصول بدل جاتے ہیں، پولیو ویکسین کبھی جعلی نہیں ہوتیں، وزیرمملکت قومی صحت کی کمیٹی کو بریفنگ ادویات کی قیمتوں میں اضافہ غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہے،کمیٹی کا ادویات کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے پر برہمی کا اظہار،ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو پرائسنگ پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنانے اور وزارت کو قیمتوں کا درست تعین کرنے کی ہدایت

جمعرات 17 مارچ 2016 20:52

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 مارچ۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کے اجلاس میں کمیٹی رکن سینیٹر کلثوم پروین نے انکشاف کیا کہڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان ( ڈی آر اے پی) نے 10ایسی جعلی ادویات رجسٹرکی ہیں جن میں لکھا ہوا فارمولہ موجود نہیں جو رجسٹر ڈکی گئی ہیں اور لیبارٹری سے ٹیسٹ شدہ ہے جس کی منظوری ڈی آر اے پی نے دی ہے،2011 میں بھی لیڈی ہیلتھ ورکرز کو پیراسٹامول کی گولیاں دیں گئیں تھیں جن میں آٹا اور نمک ملا ہوا تھا،اگلے اجلاس میں کمیٹی کو ثبوت فراہم کروں گی وزیرمملکت برائے قومی صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ اگر ہم ایف ڈی اے کا معیار رکھیں تو ساری کمپنیاں ہی بند ہو جائیں، ایسی کمپنیاں جو رجسٹریشن کے قابل نہیں تھیں ان کو رجسٹرڈ کیا گیا، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں اصول ہی بدل جاتے ہیں، پولیو کے قطروں والی ویکسین کبھی جعلی نہیں ہوتی، کمیٹی نے ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادویات کی قیمتوں میں قومی اور بین الاقوامی ادویہ ساز کمپنیوں نے جو اضافہ کیا ہے وہ ناجائز، غیر قانونی اور غیر منصفانہ ہے، جس کی وجہ سے عوام کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،اراکین کمیٹی نے کہا کہ اس اضافے سے ایسا تاثر مل رہا ہے کہ شاید یہ ادویہ ساز کمپنیاں کسی قانون کی پابند نہیں ہیں اور وہ زیادہ طاقتور ہیں، کمیٹی نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پر زور دیا کہ وہ پرائسنگ پالیسی پر عملدرآمد یقینی بنائے اور وزارت کو ہدایت کی کہ وہ شفاف اور منصفانہ انداز میں ادویہ ساز کمپنیوں کے ساتھ قیمتوں کا تعین کرے تا کہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔

(جاری ہے)

جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی صحت کا اجلاس چیئرمین ساجد طوری کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو آگاہ کیا، ادویہ ساز کمپنیاں عوام کو لوٹ رہی ہیں، عدالت سے حکم امتناعی اسی لئے لیا گیا ہے، کیس کی سماعت کے دوران بھی کمپنیاں اسی طرح پیسے بٹور رہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادویہ ساز کمپنیوں کے نمائندوں نے کہا ہے کہ وہ کمپنیاں بند کر دیں گے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا حکومت دوائیاں خرید کر تقسیم کرے۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ حکومت میں اتنی دوائیاں خریدنے کی سکت نہیں ہے، ایسا ہرگز ممکن نہیں، حکومت اور صوبائی حکومتیں ایک ہسپتال کی دوائیوں کا حساب کتاب نہیں رکھ سکتیں تو لاکھوں ادویات کا حساب کیسے رکھیں گی، کمیٹی اراکین نے بھی وزیرمملکت برائے صحت کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مزید معاملات خراب ہوں گے۔

کمیٹی ممبر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں اس بات کو نہیں مانے گیں اور یہاں ملٹی نیشنل دوائیوں کی تعریف کی جاتی ہے اور مقامی کمپنیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ صحیح ادویات نہیں بناتیں، جسکی وجہ سے مقامی کمپنیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے وزارت کو اپنا فیصلہ عوام کے سامنے لانا ہو گا، کسی کو کم قیمت دی جاتی ہے کسی کو زیادہ اور قیمتوں کے تعین کا فارمولہ طے کرنا وزارت کی ذمہ داری ہے۔

میاں عتیق نے کہا کہ پرائسنگ پالیسی ہونے کے باوجود عمل نہیں ہورہا، آج کمپنیاں نقصان میں ہیں۔ سینیٹر عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ ہمیں وزارت کی مدد کرنی ہے اور مافیا پارلیمنٹ سے بڑا ہرگز نہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ وزارت کے ڈی آر اے پی کا محکمہ ہے مگر اٹھارہویں ترمیم کے بعد وزارت کے اختیار میں کمی آئی ہے، کچھ لوگ وزارت کے اس میں ملوث ہیں اور مافیا کے ساتھ ہیں۔

وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ میڈیا میں وزارت کے خلاف جو الزام لگتے ہیں وہ 90فیصد جھوٹ ہیں، پیمرا کو 10مرتبہ خط لکھا ہے مگر کارروائی نہیں ہو رہی ہے، نیب اور ایف آئی اے کے کیسز موجودہ حکومت سے پہلے کے ہیں، ڈی آر اے پی میں نیچے تک کرپشن ہو رہی ہے مگر اپنے دور میں کئی لوگوں کو کرپشن پر نوکری سے معطل کیا، پرائسنگ پالیسی دی گئی ہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت کنٹرول نہیں کر سکتی تو کوئی تو کرے گا۔ سیکرٹری صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ مارچ 2015 میں پرائسنگ پالیسی دی گئی تھی اور ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا، صاف اور شفاف پالیسی ماہرین کی زیر نگرانی وزارت نے مل کر بنائی، مالیکیول کی بنیاد پر ایک ہی قیمت رکھی اور سوالڈی کی قیمت 5868روپے کی جو سب کیلئے ایک ہے، ہمارے پاس پرائسنگ کا کوئی کیس نہیں آیا اور ایک نام اور ایک طرح دکھنے والی ادویات کے 100سے زیادہ کیسز میں وزارت نے پرائسنگ ہی نہیں کی، پرائسنگ پالیسی پر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ 5 پانچ گھنٹوں کے مذاکرات ہوئے ہیں۔

میاں عتیق نے کہا کہ ڈی آر اے پی کو نئے سرے سے بنانے کیلئے ادویہ ساز کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ وزیرمملکت نے کہا کہ کمپنیوں نے اپنی بیرون ملک کمپنیاں کھولی ہیں، بنگلہ دیش اور جرمنی میں فیکٹریاں لگائی گئی ہیں، پوری دنیا میں رجسٹریشن کے 2 سال لگتے ہیں،3 دن رجسٹریشن پر میٹنگز کی ہیں ان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی دستاویزات مکمل نہیں۔

سی ای او ڈی آر اے پی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ادویہ ساز کمپنیوں سے آڈٹ ہونے والے اکاؤنٹ کی تفصیلات مانگی ہیں، اسٹاک ایکسچینج سے تمام کمپنیوں جو رجسٹرڈ ہیں ان کے اکاؤنٹ مل جاتے ہیں اور جو رجسٹرڈ نہیں ہیں ان کے حوالے سے معلومات ایف بی آر سے لی جاتی ہیں۔ سینیٹر کلثوم پروین نے انکشاف کیا کہ ڈی آر اے پی نے 10ایسی ادویات رجسٹرکی ہیں جن میں لکھا ہوا فارمولہ موجود نہیں اور رجسٹر کی گئی ہیں اور لیبارٹری سے ٹیسٹ شدہ ہے جس کی منظوری ڈی آر اے پی نے دی ہے،2011 میں پیراسٹامول کی گولی میں آٹا اور نمک ملا ہوا تھا، سی ای او ڈی آر اے پی نے کہا کہ سینٹرل ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری ہے اور صوبوں میں بھی موجود ہے۔

سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہم لوگوں کو زہر کھلا رہے ہیں، 50ہزار کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں اور لیبارٹری نہیں2006سے میں لگی ہوئی ہوں کہ لیبارٹری بننی چاہیے، سی ای او (ڈراپ) نے کہا کہ ایک ہی دوائی کی قیمت مارکیٹ میں 25روپے بھی ہے اور75روپے بھی ہے لیکن اگر ان کا فارمولہ اور استطاعت ایک ہے تو ادارہ اس کی اجازت دیتا ہے۔ سینیٹر نعمان وزیر خٹک نے کہا کہ ای پی آئی کو ٹیسٹ کرنے کی کوئی لیبارٹری نہیں ہے۔

وزیرمملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ مجھے جب وزارت ملی تو حیران تھی کہ کیسے چل رہی ہے،قواعد و ضوابط ہی نہیں تھے اگر ہم ایف ڈی اے کا معیار رکھیں تو ساری کمپنیاں ہی بند ہو جائیں، ایسی کمپنیاں جو رجسٹریشن کے قابل نہیں تھیں ان کو رجسٹرڈ کیا گیا، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پاکستان میں اصول ہی بدل جاتے ہیں، پولیو کے قطرے کبھی جعلی نہیں ہوتے۔

متعلقہ عنوان :