سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بد سلوکی کیس:

سابق کمشنر اسلام آباد خالد پرویز ، سابق ڈپٹی کمشنر چودھری محمد علی سمیت 11 افسران کی غیر مشروط معافی نامہ مسترد

جمعرات 17 مارچ 2016 14:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔17 مارچ۔2016ء) سپریم کورٹ نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری بدسلوکی کیس کے تحت چلنے والی توہین عدالت کی کارروائی میں سابق کمشنر اسلام آباد خالد پرویز ، سابق ڈپٹی کمشنر چودھری محمد علی سمیت 11 افسران کی غیر مشروط معافی نامے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین رکنی بنچ پہلے ہی معافی کے حوالے سے معاملات کو زیر بحث لا چکا ہے اب دلائل میرٹ پر سن کر فیصلہ کر دیں گے ۔

وکلاء اگلی سماعت پر میرٹ پر دلائل کی تیاری کر کے آئیں اور دلائل دیں ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کے لئے طلب کیا ہے جبکہ پانچ رکنی لارجر بنچ کے سربراہ چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ قانون تو عام آدمی کی پگڑی اچھالنے کی اجازت نہیں دیتا وہ تو چیف جسٹس تھے ،یہ مقدمہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی اکیلی ذات کا نہیں ادارے کی عزت اور وقار کا ہے انفرادی معاملات سے ادارے تباہ ہوتے ہیں افسران خود کو قانون سے زیادہ شاہ کا وفادار سمجھتے ہیں اب معافی کی بات نہیں ہو سکتی آپ میرٹ پر دلائل دیں سن کر فیصلہ کر دیں گے ۔

(جاری ہے)

مقدمے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے ۔ اداروں کے حوالہ سے اس طرح کے اقدامات کی اجازت نہیں دی جا سکتی جبکہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ پولیس افسران یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہیں صفائی کا موقع نہیں مل سکا آپ یہ چاہتے ہیں کہ معاملہ ٹرائل کورٹ کو منتقل کیا جائے مگر چیف جسٹس صاحب چاہتے ہیں کہ آپ میرٹ پر دلائل دیں تاکہ اس کا اب فیصلہ کر دیا جانا چاہئے ۔

انہوں نے یہ ریمارکس جمعرات کے روز دیئے ہیں اس دوران چودھری محمد علی ، خالد پرویز ، جمیل ہاشمی ، رخسار مہدی ، سراج خان سمیت دیگر کی جانب سے ڈاکٹر خالد رانجھا ، ابراہیم ستی اور دیگر وکلاء پیش ہوئے اور عدالت سے استدعا کی مذکورہ بالا تمام تر افسران ریٹائر ہو چکے ہیں عدالت اپنی ریزرویشن واپس لے ۔ چودھری محمد علی اور خالد پرویز 15 ، 15 روز کی سزا جبکہ رخسار مہدی اور جمیل ہاشمی عدالت اٹھنے تک کی سزا بھگت چکے ہیں ۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ آپ تو ایسے کہہ رہے ہیں کہ جیسے انہوں نے کچھ بھی نہیں کیا ۔ یہی افسران ہی تو ہیں جو سیکورٹی پلان دیتے ہیں ۔ چودھری محمد علی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے وکیل بشیر تھے جو فوت ہو چکے ہیں اب وہ خود دلائل دینا چاہتے ہیں اور کوئی وکیل مقرر نہیں کرنا چاہتے جس روز واقعہ رونما ہوا وہ موقع پر موجود تھے جو عدالت پوچھے گی عدالت کو اس کا تشفی جواب دیا جائے گا اس پر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کے وکیل کو فوت ہوئے عرصہ ہو چکا ہے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ مزید کیا چاہتے ہیں ۔

اس پر وکلاء نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے غیر مشروط معافی نامے منظور کئے جائیں اور عدالتی ریزرویشن واپس لی جائے اس پر عدالت نے کہا کہ اب معافی نامے کی بات نہیں ہو سکتی کیونکہ اب یہ معاملہ پہلے ہی زیر بحث لایا جا چکا ہے ۔اب مقدمہ کی سماعت میرٹ پر ہو گی ۔ بعدازاں عدالت نے سماعت اپریل کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے وکلاء کو میرٹ پر دلائل کی تیاری کے لئے مہلت دے دی ہے ۔ واضح رہے کہ پولیس افسر نے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ بدسلوکی کی تھی جس پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا اور پولیس افسران کو سزائیں دی گئی تھیں جن کے خلاف انہوں نے نظرثانی کی اپیلیں دائر کی تھیں ۔