کاکراپر اٹامک پاور اسٹیشن سے جوہری مواد لیک ہونے کی اطلاعات ‘ بھارت کے جوہری پروگرام کے محفوظ ہونے کے دعوی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 15 مارچ 2016 21:53

کاکراپر اٹامک پاور اسٹیشن سے جوہری مواد لیک ہونے کی اطلاعات ‘ بھارت ..

نئی دہلی(ا ردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔15مارچ۔2016ء) ہندوستانی ریاست گجرات میں واقع کاکراپر اٹامک پاور اسٹیشن سے کچھ جوہری مواد لیک ہونے کی اطلاعات نے ایک مرتبہ پھر بھارت کے جوہری پروگرام کے محفوظ ہونے کے دعوی پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔پلانٹ آپریٹر نیوکلیئر پاور کارپوریشن آف انڈیا کی جانب سے ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسٹیشن کے یونٹ 1 کو اس وقت بند کرنا پڑا جب ہیٹ ٹرانسپورٹ سسٹم سے لیکج ہوئی۔

آپریٹر نے یقین دہانی کرائی کہ کسی قسم کی ریڈی ایشن کا اخراج نہیں ہوا اور وہاں کام کرنے والے محفوظ ہیں۔اس کے بعد سے پلانٹ سے نیوکلیئر پاور کارپوریشن یا اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کی جانب سے کوئی اپ ڈیٹ سامنے نہیں آئی جو کہ انڈیا میں جوہری تحفظ کا نگران ادارہ ہے۔

(جاری ہے)

ایک عالمی ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نامکمل معلومات کی وجہ سے کسی قسم کی تصویر بنانا آسان نہیں، ہم جانتے ہیں کہ 11 مارچ کی شپ کو پاور پلانٹ میں ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا، اگرچہ یہ حادثہ یا اس کا آغاز صبح نو بجے ہوا مگر ہمیں اب تک علم نہیں کہ نافذ کی گئی ایمرجنسی کو اٹھالیا گیا ہے یا نہیں اور صورتحال معمول پر آئی یا نہیں۔

تاپی کے ضلعی مجسٹریٹ بی سی پٹنی کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں حالانکہ یہ جوہری ری ایکٹر انتظامی طور پر ضلع سورت کا حصہ ہے ، اس کے قریب واقع آبادی ضلع تاپی میں آتی ہے۔مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آخری اپ ڈیٹ ہفتہ کی شب کی ہے، جوہری اسٹیبلشمنٹ ٹیم نے پانی اور زمین کے نمونے حاصل کرکے ریڈی ایشن ٹیسٹوں کے لیے بھیجے ہیں۔

ہمیں ورکرز کی حالت کے بارے میں بھی کچھ علم نہیں خاص طور پر وہ جو اس روز صبح کی شفٹ میں تھے، ہمیں بس یہ یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ ریڈی ایشن کی مقدار بہت زیادہ نہیں تھی۔بین الاقوامی روایات پر عمل کرتے ہوئے نیوکلیئر کارپوریشن کو مقامی شہری انتظامیہ، میڈیا اور شہری گروپس پر مبنی ایک ایمرجنسی رسپانس ٹیم کو تشکیل دینا چاہئے تھا۔ اسے تازہ ترین اپ ڈیٹس بشمول ری ایکٹر کی عمارت کے اندر اور ارگرد ریڈی ایشن کی مقدار، تحقیقات کے نتائج اور ورکرز کی حالت کے بارے میں بتانا چاہئے تھا۔

آخری اطلاعات تک پلانٹ کی انتظامیہ لیکج کی وجہ کے بارے میں غیریقینی کا شکار ہیں۔2005 میں انڈیا۔امریکا معاہدے کے تحت شہری اور فوجی جوہری تنصیبات کو علیحدہ کرنے کے فیصلے کے باوجود جوہری صنعت کو انڈیا میں عوامی اسکروٹنی سے آزادی حاصل ہے۔اٹامک انرجی ریگولیٹری بورڈ کے 1993 سے 1996 تک سربراہ رہنے والے ڈاکٹر اے گوپال کرشنا کا کہنا ہے کہ کاکراپر کی صورتحال سامنے آنے والے بیان سے زیادہ سنجیدہ ہوسکتی ہے۔

ان کے بقول کچھ رپورٹس سے عندیہ ملتا ہے کہ ریڈی ایشن کم از کم ایک بار ماحول میں ضرور خارج ہوئی ہے اور مجھے شبہ ہے کہ ایسا پانی اور دھویں کے اخراج کے نتیجے میں ہوا ہوگا۔ اگر یہ ٹھیک ہے تو یہ لیکج معمولی نہیں بلکہ کافی بڑی ہوسکتی ہے اور وہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہوگا۔اس سے پہلے کاکراپر جوہری پلانٹ میں متعدد حادثات پیش آچکے ہیں جن میں سب سے اہم 1994 کا تھا جب ری ایکٹر میں سیلابی پانی عمارت کے اندر تک گھس آیا تھا۔

فلڈ گیٹس کو اضافی پانی کے اخراج کے لیے کھولا نہیں جاسکا اور پانی کی سطح بڑھتی رہی اور بڑے حادثے کا خطرہ بڑھ گیا تھا مگر ورکرز نے سخت محنت کرکے اس کی روک تھام کرلی۔2004 میں بھی اس پلانٹ پر ایک حادثہ پیش آیا جب مرمتی کام کے دوران کنٹرول راڈز کو نقصان پہنچا جبکہ مارچ 2011 میں بھاری پانی کی لیکج کے نتیجے میں پلانٹ شٹ ڈاﺅن کرنا پڑا۔خیال رہے کہ کاکراپر ری ایکٹر کا یونٹ 1 ایمرجنسی کولنگ سسٹم کو آزمائے بغیر شروع کردیا گیا تھا جس کے نتیجے میں حالیہ بحران کے باعث سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔انڈین جوہری اسٹیبلیشمنٹ مکمل طور پر رازداری پر زور دیتی ہے اور وہ معلومات کے حصول کے ایکٹ سے خود کو نکالنے کے لیے ترامیم کی خواہشمند ہے۔

متعلقہ عنوان :