برطانیہ ‘خواتین نے بیواوٴں کی فلاح وبہبود اور معاشرتی رویوں سے مقابلے کرنے کیلئے یوئر سہیلی مہم شروع کردی

منگل 15 مارچ 2016 13:14

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔15 مارچ۔2016ء) برطانیہ میں ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین نے بیواوٴں کی فلاح وبہبود اور معاشرتی رویوں سے مقابلے کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی ہے۔یوئر سہیلی‘کے نام سے شروع ہونے والی اس مہم کا مقصد بیوہ ہونے والی جنوبی ایشیائی خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والی معاشرتی رویوں کے خلاف آواز اْٹھانا ہے۔

مہم کو شروع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بیوہ ہونے والی بعض خواتین کو شوہر کے انتقال کے بعد دوبارہ سے اپنی زندگی شروع کرنے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی سلسلے میں برطانیہ میں کووینٹری کے سپورٹس سینٹر میں ایک تقریب منعقد کی گی جس میں بیوہ خواتین نے شرکت کی۔تقریب میں 33 سالہ بیوہ خاتون رج مالی بھی شریک تھیں۔

(جاری ہے)

ایک سال قبل اْن کے شوہر کا انتقال ہوا اور اور اب وہ اپنی زندگی اکیلے گزار رہی ہیں۔

راج مالی نے بتایا کہ مجھے ہمیشہ ایسا لگتا تھا جیسے کچھ برا ہونے والا ہے۔ یہ سب صدمے کی وجہ سے تھا۔ میں اپنے ساتھ مدد نہ ہونے کی وجہ سے غصے میں رہتی تھی۔انھوں نے بتایا کہ وہ اور ان کے تین کم عمر بچوں نے اب اس غم کے ساتھ زندگی گزارنا سیکھ لیا۔یوئر سہیلی کی بانی جیس سیکھون جو خود بھی کم عمری میں بیوا ہو گئی تھیں نے بتایا کہ بہت سے لوگ اْن کے میک اپ کرنے اور ایسے کپڑے پہنے کو ناپسند کرتے تھے۔

وہ کہتے کچھ نہیں تھے صرف وہ ایسی نظر سے دیکھتے تھے جس سے سب پتہ چل جاتا ہے اور آپ کا دل دکھتا ہے ‘انھوں نے بتایا کہ شوہر کے انتقال کے بعد ادرگرد کے بعض افراد بیوا کو کم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ’میری بیٹیاں سوچتی تھیں کہ والد کے بغیر ان کی ماں کی عزت کم کیوں ہو گئی ‘بیوہ خواتین کیلئے منعقد کی گئی اس تقریب میں خواتین کو پرعزم اور ہمت و حوصلہ بڑھانے کیلئے لیکچر دیا گیا تقریب میں شریک میرج سینٹر چلانے والی خاتون سرنجیت کنڈولا نے بتایا کے تقریباً 20 بیوہ خواتین نے دوبارہ شادی کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے اپنی رجسٹریشن کروائی ۔

سرنجیت کنڈولا نے کہا کہ معاشرے میں تبدیلی آ رہی ہے اور دس سال قبل دوبارہ شادی کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا لوگ سمجھتے تھے کہ مرد تو شادی کر سکتے ہیں تاہم عورت کیلئے ایسے غلط تصور کیا جاتا تھا ‘بیوہ عورتوں کیلئے آواز اٹھانے والوں نے بتایا کہ مہم کے بعد برطانیہ بھر میں دوسری عورتوں کو بھی ایسی مہم چلانے میں مدد ملے گی۔

متعلقہ عنوان :