عدالتی احکاما ت نظر انداز، ایف بی آر کی طرف سے لاکھوں روپے سکینڈل میں23افسران کو قانونی شکنجہ سے بچانے کا پردہ فاش

ایف بی آر نے نجی بنک کو بھاری مالی فوائد دے کر فائل سرد خانے میں ڈال دی سپریم کورٹ سے حقائق چھپائے گئے

پیر 14 مارچ 2016 22:48

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔14 مارچ۔2016ء) ایف بی آر کی طرف سے عدالت عظمیٰ کے احکامات کو نظر انداز کرکے کئی ملین روپے سکینڈل میں23افسران کو قانون کے شکنجہ سے بچانے کے حقائق منظر عام پر آگئے ہیں،ایف بی آر کے25افسران نے پروڈنشل بنک کیخلاف کئی ملین روپے کا مقدمہ عدم پیروی کی بناء پر ہارا تھا جس پر سپریم کورٹ نے سخت نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار افسران کی نشاندہی کی ہدایت کی تھی۔

ایف بی آر کے چیئرمین ،ممبر ایڈمن اور چیف مینجمنٹ آئی آر نے اعلیٰ افسران کو بچانے کی خاطر ایف بی آر کے صرف دو افسران کو مقدمہ ہارنے کا ذمہ دار قرار دے کر دیگر23افسران کو کلین چٹ دے دی ۔آن لائن کو ملنے والی دستاویزات کے مطابق پروڈنشل بنک لمیٹڈ کے اثاثے اور ٹیکسز وصولی کا تخمینہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس پر ایف بی آر کے افسر سی آئی ٹی سکھر نے بلوچستان ہائی کورٹ میں 2000ء میں مقدمہ دائر کیا۔

(جاری ہے)

یہ مقدمہ 10سال تک بلوچستان ہائی کورٹ میں زیر سماعت رہا تاہم بروقت پیروی نہ کرنے پر یہ مقدمہ کا فیصلہ ایف بی آر کے خلاف ہوگیا تھا بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلہ کیخلاف ایف بی آر نے اپیل عدالت عظمیٰ میں دائر کی۔سابق چیف جسٹس کے حکم پر مقدمہ کی پیروی نہ کرنے کی وجوہات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کی اعلیٰ پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔

عدالت عظمیٰ کے حکم پر 21گریڈ کے دو سید اعجاز حسین شاہ اور ہارون ایم شرین پر مشتمل دو رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ،جنہوں نے اپنی رپورٹ جمع کی تھی جنہوں نے تقریباً 25بندوں کے نام دئیے تھے جن میں کمشنر محمد فیاض خان،کمشنر محمد اسحاق میمن،ایڈیشنل کمشنر محمد قمرالدین،ایڈیشنل کمشنر اکبر بگٹی،ایڈیشنل کمشنر ڈاکٹر فضل محمود البریج ودیگر افسران میں پرشوتم داس واشوانی،سعید احمد ،چیف کمشنر عاقل عثمان،چیف کمشنر محمد یونس خان،کمشنر لیگل عزیز احمد بلور،نوشاد علی،الطاف احمد خان،آفتاب احمد خان،ڈاکٹر محمد ارشاد،،سرفراز احمد،شہربانو ولاجی،فاطمہ حسین،عائشہ خالد،جاوید اقبال،انورزیب،محمد نثار احمد،امین قریشی،انعام الحق،نوید مختار،شمس الرحمان وزیر،ممبر لیگل ممتاز احمد،ممبر لیگل عاقل عثمان،جاوید اقبال مرزا،محمد ارشاد،ماجد قریشی،روزلی خان برکی اور ملک محمد اعظم خان شامل ہیں۔

سا بق چیئرمین طارق باجوہ ممبر ایڈمن شاہد جتوئی اور تنویر اختر ملک چیف مینجمنٹ آئی آر نے بڑے افسران کو بچاتے ہوئے صرف دو کمزور اور معصوم افسران کو مقدمہ کی عدم پیروی کا ذمہ دار انور زیب اور جاوید اقبال کو ٹھہرایا جبکہ اصل ملزمان کو چھوڑ دیا تھا۔سابق چیئرمین طارق باجوہ اور انکی ٹیم نے اصلی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کی بجائے دو کمزور افسران پر چارج شیٹ عائد کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

عدالت نے چیئرمین کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے اصلی رپورٹ طلب کرلی ہے۔رپورٹ کے مطابق پروڈنشل انویسٹمنٹ بنک کو ملین روپے کا فائدہ پہنانے اور مقدمہ کو سردخانے ڈالنے اور عدم پیروی نہ کرنے والے 25افسران کا نام سامنے اگیا ہے۔یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی گئی ہے اور ایف بی آر کے ان افسران کے خلاف عدالت عظمیٰ اگلے ہفتے اہم مقدمہ کی سماعت دوبارہ شروع کر رہی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ حکم دیا ہے کہ طارق باجوہ اور شاہد جتوئی سابق ممبر ایڈمن اور تنویر اختر ملک نے عدالت عظمیٰ سے اصل حقائق چھپائے ہیں اور اصل ذمہ داروں کو جس میں بڑے افسران شامل ہیں اور دو افسران کو ملزم قرار دیا ہے جن کو انکوائری افسر بشیر اﷲ خان نے بے گناہ قرار دیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ اصل ملزمان کیخلاف کارروائی کی جائے اور طارق باجوہ،شاہد جتوئی اور تنویر اختر ملک کے خلاف بھی کارروئی کی جائے جنہوں نے سپریم کورٹ سے اصل حقائق چھپائے تھے اور اصل ملزمان کے خلاف کارروائی نہیں کی تھی۔

ایف بی آر کی موجودہ مینجمنٹ کیلئے یہ ایک امتحان ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے احکامات کی صحیح طریقے سے پیروی کرے اور سپریم کورٹ سے کوئی چیز نہ چھپائے اور اصل ملزمان کے خلاف کارروائی کرے جنہوں نے کیس کی پیروی نہیں کی تھی اور طارق باجوہ ،شاہد جتوئی اور تنویر اختر ملک کے خلاف بھی کارروائی کرے۔کیس کی اگلی سماعت آئندہ ہفتے ہوگی۔

متعلقہ عنوان :