انقرہ دھماکہ،ترک لڑاکا طیاروں کی کردستان ورکرز پارٹی کے اسلحہ ڈپو سمیت 18 ٹھکانوں پر بمباری

9 ایف 16 اور2 ایف 4 جیٹ طیاروں نے کالعدم کردستان ورکرز پارٹی کیعراق کے شمال میں قندیل کی پہاڑیوں سمیت 18 ٹھکانوں پر حملے کیے،اسلحہ ڈپوں ،بنکروں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ، جنوبی شہر عدنہ میں چھاپوں کے دوران پی کے کے کے 38 مشتبہ کرد باغی گرفتار،استنبول سے 15 کرد جنگجوپکڑے گئے،ترک سیکورٹی حکام

پیر 14 مارچ 2016 22:27

انقرہ دھماکہ،ترک لڑاکا طیاروں کی کردستان ورکرز پارٹی کے اسلحہ ڈپو ..

انقرہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔14 مارچ۔2016ء) ترکی نے انقرہ دھماکے کے بعد ملک کے جنوب مشرق اور عراق میں موجود کرد باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا ،ترک فضائیہ کے جنگی طیاروں نے قندیل اور گارا کے علاقوں میں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے اسلحے کے ذخیرے سمیت 18 ٹھکانوں کو نشانہ بنایاہے ۔غیر ملکی میڈیاکے مطابق ترکی کی افواج نے انقرہ دھماکے کے بعد ملک کے جنوب مشرق اور عراق میں موجود کرد باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے ۔

ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی اناطولو کی رپورٹ کے مطابق 9 ایف 16 اور دو ایف 4 جیٹ طیاروں نے کالعدم کردستان ورکرزپارٹی )پی کے کے( عراق کے شمال میں واقع قندیل کی پہاڑیوں سمیت اٹھارہ ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں اور ان میں اسلحہ ڈپوں ،بنکروں اور پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پولیس نے جنوبی شہر عدنہ میں چھاپا مار کارروائیوں کے دوران پی کے کے سے تعلق رکھنے والے38 مشتبہ کرد باغیوں کو گرفتار کرلیا ہے۔

استنبول سے 15 کرد جنگجوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔درایں اثنا ترکی کے وزیر صحت محمد معزین اوغلو نے کہا ہے کہ خودکش بم حملے میں زخمی ہونے والے3 اور افراد دم توڑ گئے ہیں جس کے بعد انقرہ کے مصروف علاقے میں خودکش کار بم دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد37 ہوگئی ہے۔خودکش حملہ آور نے بس اسٹاپ پر کھڑے لوگوں اور بسوں کو بارود سے بھری کار سے نشانہ بنایا تھا جس سے 125 افراد زخمی ہوئے تھے۔

ان میں شہر کے اکہتر مختلف اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ان میں سے پندرہ کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ترک حکومت کے ایک اعلی عہدے دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یہ حملہ ممکنہ طور پر دو بمباروں نے کیا تھا اور ان میں ایک عورت تھی۔انھوں نے کرد باغیوں پر اس حملے کا الزام عاید کیا ہے۔ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا تھا کہ حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے گی اور انھیں ’گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔

‘ترک صدر کا کہنا تھا کہ اس قسم کے حملوں سے ملک کی افواج کا عزم مزید مضبوط ہی ہوتا ہے۔ترکی کے وزیرِ داخلہ افقان علیٰ نے کہا ہے کہ اس دھماکے کے بارے میں تحقیقات جلد مکمل ہو جائیں گی اور اس کے ذمہ داران کے نام سامنے لائے جائیں گے۔ادھر امریکہ اور شمالی بحرِ اوقیانوس کے ممالک کے اتحاد نیٹو نے بھی اس دھماکے کی مذمت کی ہے۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ ’ہم دہشت گردی کے مشترکہ خطرے سے لڑنے کے لیے اپنے نیٹو اتحادی ترکی سے مضبوط شراکت کا اعادہ کرتے ہیں۔

‘نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ ’اس قسم کے پرتشدد اور خوفناک اقدام کی کوئی توجیح پیش نہیں کی جا سکتی۔‘انقرہ کے مقامی وقت کے مطابق شام 6بجکر 41 منٹ ہونے والے اس دھماکے کے بعد کسی دوسرے دھماکے کے خدشے کے پیشِ نظر علاقے کو خالی کروا لیا گیا تھا۔خیال رہے کہ انقرہ اس دھماکے سے قبل گذشتہ چند ماہ کے دوران دو بڑے دھماکوں کا نشانہ بن چکا ہے۔

گذشتہ ماہ یہاں ایک بم حملے میں ایک فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور اس دھماکے میں 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔اس دھماکے کی ذمہ داری کرد جنگجو گروہ ’ کردستان فریڈم ہاکس‘ نے قبول کی تھی اور اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں کہا تھا کہ یہ حملہ صدر رجب طیب اردوغان کی پالیسیوں کے خلاف انتقامی کارروائی تھی۔اس سے قبل گذشتہ برس اکتوبر میں شہر میں کرد باشندوں کی ایک امن ریلی میں دو خودکش دھماکوں سے 100 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے۔

متعلقہ عنوان :